قومی صحت کارڈ جیسے اقدامات کی افادیت

پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے، ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں، قائداعظم آزاد ذہن رکھنے والی شخصیت تھے لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں ان کے بعد جو قیادت آئی اس نے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھے اور اپنی طاقت کو نہیں پہچانا، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی، ماضی میں زراعت، معدنیات اور سیاحت جیسے اہم شعبوں پر توجہ نہیں دی گئی، پاکستان صرف سیاحت سے اتنی آمدنی حاصل کر سکتا ہے کہ قرضے اتر سکتے ہیں، اب پہلی مرتبہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ ایک سال میں پاکستان میں تاجر برادری کے اعتماد میں 108 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کاروبار میں آسانیوں کے حوالہ سے پاکستان کی درجہ بندی میں 28 درجہ بہتری آئی ہے۔ پاکستان فلاحی ریاست کے طورپر دنیا کے لئے مثال بننے جا رہا ہے، اسلام آباد، پنجاب، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور تھرپارکر کے تمام گھرانوں کو 10 لاکھ روپے تک کی صحت کی سہولیات مفت فراہم کئے جانے کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔اس حوالے سے نیا پاکستان قومی صحت کارڈ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آنے والا وقت قومی صحت کارڈ جیسے ہمارے اقدامات کی افادیت ثابت کرے گا، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی شہریو ں کو اس طرح کی ہیلتھ انشورنس میسر نہیں،ملک کاپیسہ لوٹنے والے حکمران کھانسی کا علاج کرانے بھی باہر جاتے ہیں، ان کا سارا خاندان باہر بیٹھا ہے، پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنائیں گے، جس میں ریاست کمزور اور غریب کی ذمہ داری لے اور قانون کی حکمرانی ہو۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے صحت کارڈ کے اجرا پر عثمان بزداراور ان کی ٹیم اور وفاقی وزارت صحت کی خدمات کو بھی سراہا،دیکھا جائے تو یہ بہت بڑااقدام ہے، صحت کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت میسر ہوگی،میں نے برطانیہ کا نیشنل ہیلتھ سسٹم قریب سے دیکھا ہے اور میں اس سے بڑا متاثر تھا لیکن جو نظام ہم لے کر آئے ہیں، یہ اس سے بھی بڑھ کرہے۔ برطانیہ میں شہریوں کے لئے صرف سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ہے جبکہ ہم نے جو ہیلتھ کارڈ
متعارف کرایا ہے اس کے ذریعے شہری نہ صرف سرکاری بلکہ پرائیویٹ ہسپتال سے بھی مفت علاج کی سہولت حاصل کر سکیں گے اور ہیلتھ انشورنس کے لئے کوئی پریمیم بھی نہیں دینا پڑے گا۔ یہ کارڈ امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر سب کے لئے ہے۔ میں نے سرکاری ہسپتالوں کی تنزلی کا سفر دیکھا ہے۔ پہلے سرکاری ہسپتال بہت بہتر ہو تے تھے لیکن وقت کے ساتھ امیروں کے لئے پرائیویٹ ہسپتال بن گئے جبکہ سرکاری ہسپتال صرف غریبوں کے لئے رہ گئے۔ ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کی حالت یہ ہو گئی کہ ان میں ڈاکٹرز نہیں اور پسماندہ علاقوں میں صحت کی سہولیت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورا سسٹم صرف ایلیٹ کلاس کو سہولیات فراہم کرتا تھا اور غریب صرف ٹھوکریں کھانے کے لئے رہ گیا تھا۔ پاکستان کسی مقصد کے لئے بنا تھا، بھارت کے مسلمانوں نے پاکستان کے لئے ووٹ دیا تھا جبکہ انہیں معلوم بھی تھا کہ وہ وہیں رہ جائیں گے۔ ماضی میں کسی نے اس وژن کے بارے میں نہیں سوچا جس کے تحت پاکستان بنا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کی تو پاکستان میں کینسر کا علاج نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے مجھے اپنی والدہ کو برطانیہ لے جانا پڑا۔ عام آدمی مہنگے علاج کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس لئے میں نے کینسر ہسپتال کے قیام کا سوچا۔ جب ہم نے یہ ہسپتال شروع کیا تو پہلے چیف ایگزیکٹو جن کا تعلق بیرون ملک سے تھا نے کہا کہ اگر پانچ فیصد سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج کرنے کی کوشش کی گئی تو 3 ماہ میں شوکت خانم ہسپتال بند ہو جائے گا۔ تین ماہ بعد وہ چیف ایگزیکٹو تو چلے گئے لیکن وہ کینسرہسپتال آج بھی سالانہ 10 ارب روپے غریبوں کے مفت علاج پر خرچ کرتا ہے۔ ماضی میں حکمران انتظار کرتے تھے کہ خوشحالی آئے گی توپاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے،ہم نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کاآغاز کردیا ہے۔ اس مقصد کے لئے رحمت اللعالمین اتھارٹی قائم کی ہے جو تعلیمی اداروں میں نبی کریم ﷺکی سیرت کے حوالے سے تعلیم و آگاہی فراہم کر ے گی۔ ریاست مدینہ نے کمزور طبقے کی ذمہ داری لی اور قانون کی حکمرانی قائم کی۔ پاکستان میں طاقتور کے لئے الگ قانون تھا اورامیر و غریب میں فرق بڑھتا گیا۔ آج ہم نے صحت کارڈ کا جو تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ آنے والا وقت اس کی افادیت ثابت کرے گا۔ قومی سلامتی کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب عام آدمی ریاست کے ساتھ تعلق محسوس کرے۔ماضی میں حکمران پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے، وہ اپنا علاج بھی بیرون ملک کراتے ہیں۔انہیں عام آدمی کی مشکلات کا احساس نہیں ہے۔ ہم نے جو فلاحی اقدامات کئے ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہیلتھ انشورنس پر ساڑھے چار سو ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔
یہ امر حقیقی ہے کہ صحت کارڈ ایک پوراہیلتھ سسٹم ہے، اس سے صحت کا پورانظام بہتر ہو گا۔ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں مقابلے کی فضا سے صحت کا پورا نظام بہتر ہو گا اور پسماندہ علاقوں میں بھی پرائیوٹ ہسپتال بنیں گے کیونکہ لوگوں کے پاس علاج کرانے کے لئے پیسہ موجود ہوگا۔اسی کے پیش نظر پنجاب میں پانچ نئے زچہ وبچہ ہسپتال بنائے جا رہے ہیں ، صوبے میں دوران زچگی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی مراعات دی جائیں گی تاکہ پسماندہ علاقوں میں بھی پرائیویٹ ہسپتال بن سکیں۔اس حوالے سے پاکستان فلاحی ریاست کے طور پر پوری دنیا کے لئے ایک مثال بنے گا۔ صحت کارڈ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے وزیراعظم کا خواب ہے، راولپنڈی ڈویژن کے اضلاع کے عوام کو صحت کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ 56 ہسپتال صحت کارڈ کے پینل پر ہوں گے۔ پنجاب حکومت نے 31 اضلاع کے 11کروڑ عوام کی صحت کے لئے 400 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ مارچ کے آخر تک پورے پنجاب میں صحت کارڈ کی سہولت میسر ہو گی۔ پنجاب حکومت نے صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی ہے اور یہ صوبہ اس لحاظ سے ایک مثال بنے گا۔ پنجاب میں صحت کے شعبہ کے لئے 200 گنا زیادہ بجٹ مختص کیا گیا ہے اور 23 نئے ہسپتال اور 8 زچہ وبچہ ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ صحت کے شعبہ میں انقلاب آرہا ہے۔ آنے والے وقت میں اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔ یہ فلاحی ریاست کی جانب عملی قدم ہے۔کووڈ۔ 19کی وبا کے دوران بین الاقوامی برادری نے پاکستان کے اقدامات کو سراہا۔ صحت کے شعبے پرتوجہ دی گئی ہے۔صحت انصاف کارڈ بڑی سہولت ہے۔ اس کے ذریعے شہری کینسر،ہارٹ، سی سیکشن، ڈائیلاسز، جلنے اور حادثے کی صورت میں بھی علاج کراسکیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس صحت کارڈ کے ذریعے صحت کی مزید سہولیات بھی میسر آئیں گی، فی الحال صرف انڈور ٹریٹمنٹ کی سہولت حاصل ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭