بلوچستان اور ہنگو دہشت گردی، ہماری سلامتی کیلئے نئے چیلنجز

بلوچستان میں دہشت گردوں کے ساتھ لڑائی میں گزشتہ روز پاک فوج کے دس جوان وطن پر قربان ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ بیان کیمطابق بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ یہ حملہ 25‘ اور 26 جنوری کی درمیانی شب کیا گیا۔ اس دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں پاک فوج کے 10 جوان شہید ہو گئے جبکہ ایک دہشت گرد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ تین دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ کلیئرنس اپریشن ابھی تک جاری ہے جو ملزمان کو انجام تک پہنچانے کیلئے جاری رہے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت اور پاک فوج کے دس جوانوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوانوں کے خون کا ایک ایک قطرہ ملک کے تحفظ کا ضامن ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ بزدل دشمن کا ایک مضبوط قوم سے سامنا ہے جس نے پہلے بھی دہشت گردی کو شکست دی ہے۔
اس ارض وطن کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے عساکر پاکستان نے بے شک لازوال قربانیاں دی ہیں اور مکار دشمن کی سازشوں کے مقابل وطن کی حرمت و سلامتی پر بھی کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دی اور قوم بھی عساکر پاکستان کے اسی جذبے کی بنیاد پر انکی سپاس گزار اور دفاع وطن کی خاطر سیسہ پلائی دیوار کی طرح انکے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ ہماری جری و بہادر عساکر پاکستان کی قربانیوں ہی کا نتیجہ ہے کہ اس ارض وطن کو گھنائونی دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام اور انتشار کا شکار کرنے کی دشمن کی سازشیں کامیاب نہیں ہو سکیں اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے ردعمل میں ہماری سرزمین پر شروع ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا قلع قمع کرتے ہوئے ہماری سکیورٹی فورسز نے دشمن پر اپنی دھاک بٹھائی اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشتگردی کی جنگ جاری رکھنے کا عزم باندھ کر اس جنگ میں سرخروئی حاصل کی۔
دو دہائی قبل افغان سرزمین پر امریکی نیٹو فورسز کی جانب سے شروع کی گئی جنگ بے شک ہماری ذاتی جنگ نہیں تھی تاہم اس خطے میں مستقل قیام امن و استحکام کی خاطر پاکستان نے اس جنگ میں لاجسٹک سپورٹ والا کردار قبول کیا اور خطے کے امن ہی کی خاطر اس کا خمیازہ سکیورٹی فورسز کے دس ہزار جوانوں سمیت مجموعی 70 ہزار کے لگ بھگ شہریوں کے جانی نقصان اور بے بہا مالی نقصانات کی صورت میں بھگتا۔ ہماری سکیورٹی فورسز اور عوام کی ان قربانیوں کے باعث ہی امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں کی افغانستان سے محفوظ واپسی ممکن ہوئی مگر انہوں نے پاکستان کا احسان مند ہونے کے بجائے اسکے کردار پر انگلیاں اٹھانا اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ افغانستان کی بدامنی کا ہماری سلامتی کیخلاف فائدہ اٹھانے والے بھارت کو بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں امریکی سرپرستی حاصل ہو گئی۔
یہ امر واقعہ ہے کہ کابل میں طالبان حکومت کی واپسی امریکہ اور بھارت کی شکست عظیم تھی جس میں اٹھائی جانیوالی خفت مٹانے کیلئے ان دونوں ممالک نے باہمی گٹھ جوڑ کرکے پاکستان اور طالبان حکومت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازشوں کا آغاز کیا اور بدقسمتی سے طالبان کی جانب سے بھی ہمیں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا جنہوں نے نہ تو افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار کو خوش دلی سے تسلیم کیا اور نہ ہی کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں جاری دہشت گردی ختم کرانے کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا کیا۔ اسکے برعکس بھارت نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی اپنے گھنائونے مقاصد کے تحت فنڈنگ اور سرپرستی شروع کر دی چنانچہ ان دہشت گردوں نے بلوچستان‘ خیبر پی کے سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارتی سرپرستی میں ہی دہشت گردی کی نئی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جو کیچ بلوچستان کی گزشتہ شب کی دہشت گردی تک جا پہنچا ہے جس میں ہماری سکیورٹی فورسز کے دس جوانوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
اسکے علاوہ گزشتہ روز ہنگو میں بھی مسلح شر پسندوں نے گیس فیلڈ پر حملہ کیا جس میں ایک گارڈ جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ طالبان حکومت کے رویے کو بھانپ کر بھارت نے ہماری سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں مزید تیز کر دی ہیں جس کے پھیلائے دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں سکیورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انارکلی لاہور کی دہشت گردی میں بھارتی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے تو ٹھوس ثبوت بھی مل چکے ہیں اس لئے بلوچستان اور ہنگو کی دہشت گردی میں بھی بھارتی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف کے بقول افغان سرزمین اب بھی پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے بقول آئندہ دو ماہ میں دہشت گردی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے تو یہ صورتحال ہماری سول اور عسکری قیادتوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردوں کو ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود لیپس سے ہی فائدہ اٹھانے اور کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
دہشت گردی کے اس نئے چیلنج سے عہدہ برأ ہونے کیلئے سب سے پہلے تو ہماری سکیورٹی فورسز کی توجہ ملک و قوم کے دفاع کے تقاضے نبھانے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اسکے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کا تاثر اجاگر کرنے اور دشمن کو دفاعِ وطن کیلئے قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسے ہمارے ملک میں عدم استحکام کی فضا کو بھانپ کر ہی اپنی سازشیں پھیلانے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کی خاطر افغان سرحد کی بھی کڑی نگرانی کرنی ہے جہاں سے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ افغان سرحد پر باڑ لگانے کے معاملہ میں تو طالبان حکومت کے ساتھ بھی کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر طالبان کو ہماری سلامتی عزیز نہیں اور افغان سرزمین بدستور ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو ہمیں اپنی قومی خارجہ پالیسی کی سمت بہرصورت درست کرنی چاہیے اور طالبان کے حوالے سے عالمی برادری میں موجود تحفظات پر عالمی برادری ہی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر کیچ بلوچستان میں ہماری سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کرنیوالے دہشت گرد افغانستان سے آئے ہیں تو ایسے ٹھوس ثبوت ملنے پر کابل انتظامیہ کو سخت وارننگ دینا ضروری ہے۔