والدہ مرحومہ کی یادیں
بحریہ ٹاون کے نجی ہسپتال کے کمرے میں میری والدہ نے میری بڑی بیٹی کو اپنے پاس بلایا، کہنے لگیں، بیٹا
It is the end of my life
پھر قدرے توقف کے بعد گویا ہوئیں ‘ بیٹا
Keep yourself strong. My life is over.
پھر اسی شام وہ وینٹی لیٹر پر شفٹ کر دی گئیں اور جمعرات کی رات اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئیں۔ نماز جمعہ کے بعد انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں والد مرحوم کی قبر کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ والدہ سے میرا پہلا تعارف کچھ یوں تھا کہ انتہائی اوائل عمری میں جب ہم بھائی مسجد میں قرآن مجید اور نماز پڑھنے جاتے تو حکم ہوتا تھا کہ مولوی غلام رسول کیلئے دعا کریں اللہ انہیں اولاد دے۔ مولوی غلام رسول اس سرکاری کالونی میں ہمارے گھر کے قریب رہتے تھے، انکی اہلیہ کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ وہ بے اولاد تھیں لہٰذا ہم سب بہن بھائیوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ مولوی غلام رسول کے ہاں اولاد کے لئے ہر روز دعا کی جائے پھر اللہ نے ان کے گھر اولاد دی اور تین بیٹے پیدا ہوئے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ بڑے بیٹے کا نام طیب تھا۔ دوسرا حکم یہ ہوتا تھا کہ ہر کسی کو سلام کرنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں نے ہماری مسجد کے موذن کو سڑک سے گزرتے ہوئے سلام نہ کیا تو بھائی کی شکایت پر مجھے ڈانٹ پڑی کہ موذن اور قاری صاحب کے احترام کا بہت ہی سخت حکم تھا۔ یہ والدہ مرحومہ کی جانب سے ابتدائی ایام کی وہ تربیت تھی جس نے ہم سب کو غیرارادی طور پر دوسروں کے لئے جینے کی راہ دکھلائی۔
والد مرحوم کی سرکاری رہائشگاہ کا وہ اوسط درجے کا باورچی خانہ جن میں چھوٹی چھوٹی چوکیاں پڑی ہوئی تھیں جن پر بیٹھ کر ہم سب بہن بھائی سکول کا کام کرتے اور والدہ کھانا پکاتیں اور ساتھ ہی ہمارا سکول کا کام چیک کرتی رہتیں۔ والدہ کے دن کا آغاز صبح فجر کے وقت ہوتا تھا اور رات 9 بجے ہم سب کو سْلا کر وہ سویٹر بنا کرتی تھیں۔ گھر میں روٹین تھی کہ کھانا پکتا تو سب سے پہلے والد مرحوم کے لئے سالن رکھا جاتا اور پھر ہم سب بہن بھائی کھانا کھاتے۔ کفایت شعاری اتنی کہ آج اس کا تصور بھی محال ہے وہی کفایت شعاری ہم سب بہن بھائیوں میں منتقل ہو چکی ہے۔ ایک روز گھر کے صحن میں والدہ دھوپ میں سلائی مشین پر کپڑے سی رہی تھیں اور میرا چھوٹا بھائی سامنے بیٹھا تھا۔ والدہ نے اس کی طرف دیکھا تو اسے گود میں اٹھا کر سورج کی طرف اس کا چہرہ کر کے آنکھوں میں دیکھ کر شور مچا دیا کہ میں نے اس کی آنکھ میں دھبہ سا دیکھا ہے یہ کہیں موتیا نہ ہو۔ بھائی کو گود میں اٹھا کر مقامی ڈسپنسری گئیں جہاں ڈاکٹر کو کچھ پتہ نہ چل سکا۔ شام کو والد گھر آئے تو والدہ تیار بیٹھی تھیں‘ اسی وقت بھائی کو لیکر آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر کے پاس گئیں، اس نے معائنہ کیا اور کہا کہ آپ کو ایسے ہی شک ہوا ہے آنکھ بالکل کلیئر ہے مگر والدہ بضد تھیں کہ میں نے بائیں آنکھ کے باہر کی طرف خود نشان دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نے لینز تبدیل کر کے دوبارہ دیکھا تو موتیا ڈویلپ ہوتا ہوا ایک نقطے کی طرح دکھائی دیا ڈاکٹر حیرت سے کہنے لگا کہ آپ نے سادہ آنکھ سے اسے دیکھ کیسے لیا پھر ڈاکٹر نے کہا ’’دنیا کی کوئی مشین ماں کی آنکھ کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘ مزید بتایا کہ یہ چند دن کی دوا سے ٹھیک ہو جائے گا۔
میری والدہ مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئیں تو راستے میں جن جن حالات سے انہیں گزرنا پڑا وہ بہت کرب اور نمناک آنکھوں سے ان حالات کی تصویر کشی کیا کرتی تھیں میری ماں بہت زیادہ شکر کرنے والی تھیں۔ میں نے ساری عمر دیکھا کہ ان کے بستر پر پلاسٹک کی دو ٹوکریاں پڑی ہوتی تھیں جن میں سے ایک سے وہ کھجور کی گٹھلیاں اٹھا اٹھا کر کلمہ طیبہ پڑھتی اور دوسری میں ڈالتی جاتیں۔ ہر وقت سامان سے بھرا گھر دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتیں اور کہا کرتی تھیں کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ میرے گھر کے سارے کمرے اس طرح سامان سے بھرے ہوں گے اور اللہ مجھے لاہور شہر کے وسط میں اتنا بڑا گھر دے گا۔ ہم لوگ تو تین کپڑوں میں ہر چیز ہوشیار پور میں چھوڑ جان بچا کر گھروں سے نکلے تھے، اللہ تعالیٰ نے سب کچھ ہی لوٹا دیا ان کا معمول تھا کہ گھر کے جس کمرے میں بھی جاتیں، سامان دیکھ شکر ادا کرتیں۔ انہوں نے گھر میں گرے فروٹ ‘ جامن‘ کچنار ‘ امرود اور انار کے درخت لگوا رکھے تھے اور ہر اترنے والا پھل یا کچنار سب سے پہلے ہمسایوں کو کھلانے کا رواج تھا۔
سکول کے زمانے میں ایک دن میں نے ایک ہم جماعت پر ہاتھ اٹھایا جو کہ میرے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ جھگڑے میں اس کے ناک پر چوٹ لگی۔ والدہ کو پتہ چلا تو میرے ہاتھ سے کھانا چھینا اور مجھے پکڑ کر میرے اسی دوست کے گھر لے گئیں۔ اس کی والدہ سے کہا کہ اسے اپنے گھر میں درخت کے ساتھ باندھ لیں۔ اس کو بھی اس طرح مار پڑنی چاہئے جس طرح اس نے ہاتھ اٹھایا ہے۔ میرے دوست کی والدہ نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں لڑکے لڑ ہی پڑتے ہیں مگر میری والدہ نے کہا کہ میرے لئے یہ معمولی بات نہیں۔ ابھی سزا نہ ملی تو اس کا ہاتھ کھل جائے گا پھر مجھے ان کے گھر چھوڑ کر خود گھر چلی آئیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دوست کی والدہ نے مجھے کھانا کھلا کر واپس گھر بھجوا دیا مگر والدہ نے مجھے گھر میں داخل نہ ہونے دیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ ہاکی ٹانگوں میں پھنسا کر ایک لڑکے کو گرا دیا۔ گھر پہنچا تو رات کو سردی میں والدہ نے قمیض اتار کر پاجامے میں گھر سے باہر کھڑا کر دیا۔ بس وہ سزا زندگی بھر کے لئے کافی ثابت ہوئی اور پھر مجھے زندگی بھر نقصان دینے والی شرارت کی جرات نہ ہوئی۔
25 سال قبل میرے چھوٹے بھائیوں نے کینیڈا جانا تھا تب غالباً دس ہزار ڈالر کی ضرورت ہوتی تھی۔ان کے پاس ڈالر خریدنے کیلئے 3 لاکھ کم تھے۔ بھائی کی گاڑی چار لاکھ مالیت سے زائد تھی۔ اس نے کہا کہ واپس پاکستان آکر نئی گاڑی لے لوں گا میں نے گاڑی فروخت کرنے سے منع کرتے ہوئے دو بہت ہی عزیز دوستوں چوہدری اصغر گجر اور شعیب غنی سے 3 لاکھ منگوا کر انہیں دے دئیے انہوں نے کینیڈا جا کر 3 ماہ بعد پیسے بھجوا دئیے جونہی والدہ کو پیسے موصول ہوئے انہوں نے مجھے لاہور بلا لیا کیونکہ ان دنوں میں لاہور سے ملتان آچکا تھا۔ ایک دن والدہ کا فون آیا کہ لاہور آجائو۔ میں نے کہا کہ اتوار کو آ سکوں گا۔ کہنے لگیں اتوار میں تو ابھی دن ہیں پہلے ہی آجائو، پریشانی ہوئی کہ خیر ہو امی تو فون بھی کریں تو بات کرنے سے پہلے ہمیشہ یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ تمہارے پاس وقت ہے مجھے ضروری بات کرنی ہے اس لئے ان کا ایسا کہنا حیران کن ٹھا۔ میں نے گھر جا کر اہلیہ مرحومہ کو تیاری کرنے کا کہا اور تھوڑی دیر میں ہم لاہور روانہ ہوگئے۔ مجھے یاد ہے کہ گرمیوں میں مغرب سے پہلے میں گھر پہنچا تو والدہ دو پیکٹ بنا کر بیٹھی تھیں۔ ایک پر شعیب اور دوسرے پر چوہدری اصغر کے نام لکھے ہوئے تھے۔ مجھے حکم ملا کہ ابھی یہ دونوں پیکٹ دے کر آئو اور میری طرف سے دونوں کا شکریہ ضرور ادا کرنا۔ میں نے کہا امی اتنی معمولی سی بات؟ میں شعیب اور اصغر کو فون کر دیتا وہ خود آ کر لے جاتے۔ والدہ کہنے لگیں وہ گھر دے کر گئے تھے تم ان کے گھر جا کر واپس کرو۔ کہنے لگیں تمہارے لئے یہ معمولی بات ہے۔ میں نے تین ماہ سکون کی نیند نہیں لی کہ میرے اوپر قرضہ چڑھ گیا۔ زندگی میں کبھی کسی سے ایک پائی نہیں لی اور یہ اکٹھا تین لاکھ۔ میں نے کہا کہ آپ کروڑوں کے گھر میں بیٹھی ہیں، تین گاڑیاں گھر میں کھڑی ہیں ‘ہرچیز ہے آپ کے پاس۔ کہنے لگیں بس میں آج سکون سے سو سکوں گی۔ یہی سبق میرے والد مرحوم دیا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ میں نے زندگی بھر کسی سے نہ تو کچھ لینا ہے اور نہ ہی کسی کا کچھ دینا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے زندگی میں ایک سادہ سا فارمولا بنا رکھا ہے کوئی ادھار مانگے تو پہلے پانچ سو اور اب زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دیتا ہوں پھر واپس نہیں مانگتا بلکہ بھول ہی جاتا ہوں اور نہ ہی ادھار مانگنے والے نے کبھی واپس کیا۔ میں نے کبھی واپس مانگنے کا سوچا بھی نہیں۔ اس لئے میں نے نہ کسی سے کچھ لینا ہے نہ کسی کا کچھ دینا۔ کیا طیب لوگ تھے، سادہ اور بناوٹ سے پاک، سچے اور کھرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)