بھارتی جمہوریت ، کشمیر ،ؔ اقوام متحدہ ، سماج مُک مکا (1)

26 جنوری کو بھارت نے یوم جمہوریت منایا لیکن دُنیا بھر میں ’’پاکستان ، مقبوضہ کشمیراور آزاد کشمیر ‘‘ کے غازیوں اور (شُہدائے کشمیر کے ورثاء نے) ’’ یوم سیاہ ‘‘ ( Black Day) منایا۔ معزز قارئین !دو قومی نظریۂ کے تحت 14 اگست 1947ء کو پاکستان ؔقائم ہُوا اور 15 اگست کو، بھارتؔ لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت نے کشمیری عوام کو اپنے حق خود ارادیت کے تحت اپنی مرضی سے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں دِیا۔
’’ جمعیت اقوام !‘‘
1935ء میں ’’ مصورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے ’’ جمعیت اقوام ‘‘ ( League of Nations) کے عنوان سے ایک مختصر نظم لکھی تھی جس کا صِرف ایک شعر پیش کر رہا ہُوں …
’’بیچاری ، کئی روز سے ، دم توڑ رہی ہے !
ڈر ہے خبرِ بد ، نہ مرے مُنہ سے ، نکل جائے!‘‘
یعنی۔ ’ ’ غریب جمعیت اقوام پر کئی دِن سے نزع کی حالت طاری ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ اِس کے مر جانے کی منحوس خبر میرے مُنہ سے نہ نکل جائے ؟‘‘۔
معزز قارئین!۔ ’’جمعیت اقوام ‘‘ (League of Nations) کا 20 اپریل 1946ء کو ’’ بولو رام‘‘ ہوگیا تھا، پھر ’’اقوام متحدہ ‘‘ (United Nations) کا جنم ہُوا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ مصورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ کے آبائو اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ آپ نے اپنی ایک نظم میں کشمیر کی محکموی و مجبوری اور فقیری پر افسوس کا اظہار کرتے لکھا تھا کہ …
’’آج وہ کشمیر ہے ، محکوم و مجبور و فقیر!
کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ، اِیرانِ صغیر!
…O…
آہ یہ قوم ِنجیب و چرب دست ، و تردِماغ!
ہے کہاں روزِ مکافاتِ اے خُدائے دیر گِیر!‘‘
…O…
’’قائدِ ملّت اور مسٹر بھٹو !‘‘
معز ز قارئین ! قائداعظمؒ نے تو، کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دِیا تھا ۔ آپ ؒ قیام پاکستان کے ایک سال اور ایک ماہ بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے ، پھر قائداعظمؒ کے دست ِ راست پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’قائدِ ملّت‘‘ لیاقت علی خانؒ نے قیام پاکستان کے مخالف بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ( 5 اگست 1947ء ۔ 27 مئی 1964ئ) کو مُکّا دِکھایا تو، قائد ِ ملّت ؒ کو 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں شہید کر دِیا گیا۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مخاطب کر کے اعلان کِیا تھا کہ ’’ ہم ( اہلِ پاکستان) مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کے لئے ایک ہزار سال تک لڑیں گے ‘‘۔
’’بے وفا سیاستدان!‘‘
افسوس کہ ’’ سِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، صدر ، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ، اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور داماد آصف علی زرداری نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کچھ نہیں کِیا۔ صدر زرداری نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں‘‘ ۔
اِس مقصد کے لئے صدر زرداری نے تحریک پاکستان کے مخالف (کانگریسی مولویوں کی باقیات ) مولانا فضل اُلرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا اور جب میاں نواز شریف تین بار وزارتِ عظمیٰ پر سوار ہُوئے تو اُنہوں نے بھی فضل اُلرحمن صاحب کو اُسی عہدے پر فائز رکھا۔
’’ہیمو بقال ، مسٹر گاندھی اور مودی ! ‘‘
معزز قارئین ! ہندی زبان میں غلّہ فروش ، سبزی فروش کو، ’’کُنجڑااور بنیا‘‘ کہتے ہیں لیکن عربی زبان میں ’’بقال‘ؔ‘ کہتے ہیں ۔ پرانے دَور میں ہندوستان کا ایک بنیا ؔ جسے تاریخ میں ’’ ہیمو بقال ‘‘ کہا جاتا تھا ۔
ہندوستان کے بادشاہ ، عادل شاہ سوری کا چیف آف دی آرمی سٹاف بنا اور پھر وزیراعظم بھی اور 17 اکتوبر 1560ء کو مہاراجا ’’بکرما جیت ‘‘ کے نام سے ہندوستان کے تخت پر بیٹھا لیکن پانچ نومبر 1556ء کو مغل بادشاہ جلال اُلدّین اکبر کے اتالیق اکبر اور سپہ سالار بیرم خان نے ہیمو بقال کا سر قلم کردِیا ، پھر اکبر بادشاہ نے بیرم خان کو غازی کا خطاب دِیا۔
بھارت کی متعصب ہندو جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی کا تعلق بھی ’’بنیا قوم ‘‘ سے تھا۔ 26 مئی 2014ء کو ، پہلی بار بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے والے ( آج بھی ) شری نریندر سنگھ مودی بنیا قوم کے فرد ہیں ۔
’’ مزا چکھا دیو مودی نوں ! ‘‘
معزز قارئین ! 26 مئی 2014ء کو مسٹر نریندر مودی کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھانا تھا تو اُنہوں نے 18 مئی کووزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو مدّعو کِیا، اِس پر 20 مئی 2014ء کو ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ اور ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے منعقدہ تقریب میں اپنے صدارتی خطبہ میں ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو لہراتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے یہ چھڑی بھارت کو سیدھا کرنے کے لئے اٹھائی ہے‘‘ کسی ٹیڑھے شخص کو سیدھا کرنے کے لئے جو چھڑی اٹھائی جائے اسے ’’قمچی‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی زدوکوب یا مارنے والی چھڑی۔
جناب نظامی کے پاس ’’مجاہد‘‘ کی سند کے ساتھ تلوار بھی ہے جو انہیں پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے تحریک پاکستان میں خدمات انجام دینے پر مرحمت فرمائی تھی۔ لیاقت علی خان صاحب نے بھارت کو اپنا ’’مکا‘‘ دکھا کر خبردار کیا تھا کہ وہ سیدھا ہو جائے۔اِس پر 22 مئی 2014ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ مزا چکھا دیو مودی نوں !‘‘۔ دراصل میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے اپنے دو شعروں میں یہ کہا تھا کہ …
’’چنگا ہووے سانبھ کے رکھے اپنی داڑھی بودی نوں
کتے اجاڑ نہ دیوے اپنی دھرتی ماں دی گودی نوں‘‘
…O…
جیکر ساڈی سرحداں ول ویکھے میلیاں اکھاں نال
پاکستان دے غازیو مردو! مزا چکھا دیو مودی نوں
…O…
’’ معراج کی رات دِلّی میں !‘‘
26 مئی 2014ء کو بھارت میں بھی ’’ معراجِ رسول مقبولؐ ‘‘ تھی جب، وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ دوسرے دِن بھارتی اور دُنیا کے کئی ملکوں میں یہ خبر شائع ہُوئی کہ ’’ مودی جی نے میاں نواز شریف کو"Man of The Peace" (یعنی مردِ امن) کا خطاب دِیا ہے ۔ خبروں کے مطابق مودی جی نے وزیراعظم پاکستا ن میاں نواز شریف کی والدۂ محترمہ (اب مرحومہ ) شمیم اختر صاحبہ المعروف آپی جی کو ایک شال ؔ بھی تحفے میں بھجوائی تھی۔ (جاری ہے )