صدارتی جمہوریت

یہ تو معلوم نہیں کہ ملک میں صدارتی نظام آرہا ہے یا نہیں مگر الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا پر اس کے چرچے عام ہوگئے ہیں۔خاص طورپر سوشل میڈیا اس بحث سے اٹا پڑا ہے ۔صدارتی نظام حکومت پرالبتہ بہت سے دانشوروں کی آراء پڑھنے اور سننے کومل رہی ہیں،مگر کسی جماعت کے سربراہ یا اسکے کسی ترجمان نے اس پر اپنی رائے سے اجتناب کیا ہے۔صدارتی نظام کاتجربہ ہمارے ہاں جنرل ایوب خاں ،یحی خاں ،ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہوچکا ہے ۔جو لوگ صدارتی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے ان ادوار کی مثال دیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان جرنیلوں کی حکومتیں مارشل لاء کی حکومتیں تھیں۔صدارتی نظام کی نہیں۔مارشل لاء تو ایک غیر آئینی نظام ہے نہ اس کی شکل پارلیمانی ہوتی ہے نہ صدارتی، یہ عبث اندھی طاقت کانام ہے۔اس موضوع پر لکھنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ صدارتی نظام سے زیادہ بہتر تشریح لفظ "صدارتی جمہوریت"میںہے۔ایک طرف برطانوی پارلیمانی جمہوریت ہے تودوسری طرف صدارتی جمہوریت اگر کوئی ملک میں بادشاہت یامارشل لاء کی بجائے ایک منتخب اورجمہوری حکومت چاہتا ہے تو اس کیلئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نظام برطانوی پارلیمانی ہے یا صدارتی ۔ہمارے ہاں جوپارلیمانی نظام ہے وہ اس وقت اپنے پورے مکروہ چہرے کے ساتھ سامنے آچکا ہے۔ہر منتخب نمائندہ یونین کونسل کی جنرل نشست سے لے کر ایم پی اے اور ایم این اے تک کا کردار کھل کر ایسا سامنے آیا کہ اب یہ نظام اپنی موت آپ مرچکاہے۔مگر اب کی بارمارشل لاء کی بجائے صدارتی نظام کی باتیں اگر ہورہی ہیں توبہت بہتر ہے ہماری سیاسی جماعتیں کبھی بھی صدارتی نظام کو پسند نہیں کریں گی کیونکہ ان کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے ۔صدارتی جمہوریت میں علاقائی قوم پرست یاچھوٹی جماعتوں کی گنجائش کم ہوتی ہے۔انہیں بہر طورایک بڑی اور وفاقی جماعت بننا پڑتا ہے ۔اگرآئندہ انتخابات صدارتی جمہوریت کے تحت ہوں توایم کیوایم ،مسلم لیگ کے چھوٹے بڑے دھڑے نیشنل عوامی پارٹی ،پختون تحفظ موومنٹ،تحریک لبیک جئے سندھ قومی موومنٹ اور بلوچستان کی چھوٹی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ابھی تک ان علاقائی ،گروہی ،لسانی اور مذہبی گروپوں نے کوئی ایسا مثبت کردارادا نہیں کیا کہ پورے ملک سے لوگ بطورصدر انکے نامزد کردہ کسی شخص کو ووٹ دے کر منتخب کرلیں۔ان کا حال بھی وہی ہوگا جو ایوب خاں اور مادرملت کے درمیان ہونیوالے صدارتی انتخابات میں ایک آزادامیدوارمسٹرکمال کاہواتھا۔نام شائد کمال حسن تھایاکمال احمد ،وہ بھی ان انتخابات میں صدارتی امیدوار تھے مگر چھ سات ووٹ ہی لے سکے۔ان صدارتی انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی ، جماعت اسلامی،عوامی لیگ ،مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کے علاوہ علاقائی جماعتوں نے بھی مادرملت کی حمائت کرکے صدارتی جمہوریت کی توثیق کردی تھی۔اب اگر وہ اس نظام کے مخالف ہوں تو یقینا سوائے اسکے اور کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ انہیں اپناوجود ہچکولے کھاتی کشتی کی طرح نظرآرہا ہے۔ایک موچی کا بیٹامگردنیا کا عظیم مدبر اور سیاست دان ابراہیم لنکن بھی صدارتی جمہوریت کے نتیجے میں امریکہ کاصدربنا اور امریکہ کے سیاہ فام لوگوںکوغلامی کے پھندے سے نجات دلائی پھر دنیا نے دیکھا کہ انہی سیاہ فام غلاموں میں سے باراک او باما بھی صدارتی جمہوریت کے ذریعے امریکہ کاآٹھ سال تک صدررہا۔اس سے زیادہ عرصے کیلئے اس لئے نہیں کہ امریکی آئین اسے اجازت نہیں دیتا تھا۔اس وقت جبکہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اندر وراثتی سیاست چل رہی ہے اور ایک یونین کونسل کا انتخاب لڑنے کیلئے بھی پچاس لاکھ سے زائد روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ایسے ہی جوں جوں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے ہیں تو اوسطا ًسات کروڑ کاخرچہ ہوتاہے جو امیدواران کرتے ہیں اورپھر اسکی وصولی بھی قومی وسائل سے "ترقیاتی"کاموں کے زمرے میں کرتے ہیں ۔اس سے اگلا مرحلہ سینیٹ کیلئے ووٹوں کی خرید وفروخت کا ہوتا ہے۔اربوں روپوں کامکروہ دھندہ ہوتاہے۔بہت سوں کے ضمیر گناہ کی اس منڈی میں اپنی قیمت پاتے ہیں ۔پھریہ نمائندے جنہیں خودفروش کہنا زیادہ مناسب ہوگا حکومت سازی میں بھی ایک اوردائو اربوں روپوں کالگاتے ہیں۔اگریہ کسی سیاسی نظم میں ہوں تو پھر یہ جماعتیں ہر نازک وقت میں وزیر اعظم کوبلیک میل کرکے اپنی شرائط منواتی ہیں۔صدارتی جمہوریت کے بارے میں پہلے تویہ بتانا ضروری ہے کہ اسے آج تک پاکستان میں نہیں آزمایا گیا۔ جو مثالیں دی جاتی ہیں وہ مارشل لاء کے ادوار تھے اگر صدارتی جمہوریت ہوتوپھر ریاست کا انتخابی خرچہ پولنگ سٹیشن اور پولنگ کے عملے کا ہوتاہے۔نہ کہ کسی مقامی ایم پی اے یا ایم این اے کی شکل میں کروڑوں روپے کا ۔گویا اپنی نوعیت میں یہ کم خرچ جمہوریت ہے ۔صدارتی جمہوریت کے نتیجے میں جب صدارتی نظام آتا ہے تو حکومت کی فیصلہ سازی کی قوت سست نہیں رہتی ،تیزی سے کام کرتی ہے ۔ایسی جمہوریت جس میں ملک کے سربراہ ،صوبوں کے گورنر ،سینیٹ کے ممبران،شہروں کے میئر غرضیکہ ہر سطح کے عوامی نوعیت کے عہدیداروں کولوگ براہ راست اپنے ووٹوں سے منتخب کرسکتے ہوں برطانوی پارلیمانی نظام سے ہزار درجے بہترہے۔ویسے یہ موضوع ابھی محض ایک علمی بحث کے طورپر ہی چل رہا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانی عوام کی رائے لی جائے توصدارتی جمہوریت کے حق میں ہوگی۔