کیا صدارتی نظام وقت کی ضرورت ہے ؟
ٹیپو سلطان کی حکومت گرچہ مسلمانوں کیلئے تقویت کا باعث بن رہی تھی کہ ایک بہادر سورما ایک طرف تو مسلمانوں کو متحد کررہا تھا سلطنت کے اندرونی مسائل سے نبرد آزما تھا اور دوسری طرف بیرونی طاقتوں سے مفادات حاصل کرنیوالے لوگ اسکے خلاف سازشوں کا جال بن رہے تھے ٹیپو سلطان اس وقت چومکھی لڑائی لڑرہے تھے ایک لڑائی اندرونی خلفشار کی تھی دوسری لڑائی میرجعفر اور میر صادق کی سازشوں کیخلاف تھی تیسری بیرونی طاقتوں فرانسیسیوں اور سلطنت میں موجود ان کے گماشتون کیخلا ف تھی اور چوتھی لڑائی مرہٹوں کے زور کوتوڑنے کی تھی۔ عمران خان بھی چومکھی لڑ رہے ہیں ایک طرف وہ معیشت کے جام پہیے کو گردش میں لانے میں مصروف ہیں دوسری طرف غربت کا مسئلہ ان کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے تیسری لڑائی وہ کرپشن کے خلاف لڑ رہے ہیں اور چوتھی لڑائی اپوزیشن کیخلاف لڑرہے ہیں۔ اپوزیشن ان چارسالوں میں وہ محرکات سامنے لاچکی جس سے صاف نظر آتا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے دودھ کی نہریں بہا دیں، لوگ خوشحال تھے عمران نے حکومت میں آکر سب کچھ تہہ وبالا کردیا۔ اس پر طرہ یہ کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیمطابق عمران خان کے د ور میں کرپشن بڑھی۔ اپوزیشن نے ریاست کے خلاف محاذ آرائی کیلئے کمر کس لی کہ بدعنوان حکومت کے خاتمے تک سکون سے نہیں بیٹھے گی۔ خیر جو جماعت سکون سے بیٹھ جائے وہ اپوزیشن نہیں رہتی لہٰذا جب تک دال میں کالا نظر آتا رہے تو معاملہ درست رہتا ہے ۔عمران خان کا قصور اتنا کہ اسکے دور میں اپوزیشن کو پوری دال کالی نظر آتی ہے مزید برآں اکیلا عمران دکھ ہزار۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک میاں نے بیوی سے کہا کہ مہمان گھر آرہے ہیں انکے لئے کچھ پکا لینا بیوی نے کہاکہ گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے میاں نے کہا نیک بخت گھبراتی کیوں ہو جب مہمان آجائیں تو تم ایک دیگچا گرادینا میں پوچھوں گا کہ کہ کیا ہوا تم کہنا کہ قورمے کا دیگچا گرگیا پھر تھوڑی دیر بعد دوسرا دیگچا گرا دینا میں پوچھوں گا کیا ہوا تم کہنا چاولوں کا دیگچا گرگیا پھر میں کہوں گا کچھ بچا بھی ہے تو تم جواب دینا دال بچی ہے تو میں کہوں گا نیک بخت اب کیا ہوسکتا ہے دال ہی لے آؤ۔ مہماں آئے۔ کچھ دیر بعد کچن سے دیگچا گرنے کی آواز آئی بیوی نے کہا کہ دال کا ہی دیگچا گرگیا ہے ۔ہم نے اجتماعی مفادات کے کونڈے میں ذاتی مفادات کی کھچڑی کو اتنا پکایا کہ سسٹم نے ہی ڈلیور کرنا چھوڑ دیا ہم گزشتہ سات دہائیوں سے اس الجھن میں مبتلا ہیں کہ سسٹم کیوں ڈلیور نہیں کررہا ترقی کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے کیا وجہ ہے جمہوری تجربہ ماضی میں بھی ناکام رہا ۔ سکندر مرزا نے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ایوب خان کے سپرد کردی۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے اور ٹیکنالوجی کے باوجود ہم غربت میں دھنسے چلے جارہے ہیں۔ جمہوریت احتساب کی بہترین شکل ہوتی ہے ہم کبھی بھی اپنا محاسبہ نہ کرپائے۔ غلطیاں تو ہم سے بے شمار ہوئیں ہمالیہ جتنی بڑی غلطیاں۔ بعض اوقات تو ماؤنٹ ایورسٹ جتنی بڑی غلطیوں نے براہ راسٹ سسٹم پر اثر ڈالا۔ کہاجاتا ہے کہ ایک ریاست میں جب بہت زیادہ مسائل بڑھ گئے توطے پایا کہ ان مسائل کے تدارک کیلئے قصوروار کوسزا دی جائے اب سوال یہ تھا کہ مجرم کون ہے وقت کے مدبر نے مشورہ دیا کہ جوشخص شمال کے راستے سب سے پہلے شہر میں داخل ہوگا وہ مجرم ۔اگلے دن ایک شخص اس دروازے سے داخل ہو جو انتہائی لاغر اور کمزور تھا اسکو اہلکار پکڑ کر لے گئے کہ اب مجرم پکڑا گیا اب سب ٹھیک ہوجائیگا ۔ہمارے ذاتی مفادات نے ہمیں مجرموں کی اس صف میں لاکھڑا کیا ہے کہ ہمیں قومی مفادات کا مفہوم تک بھول گیا ہے ۔ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ نظام خود بخود نہیں چلتے بندے چلاتے ہیں اور اس وقت نظام میں اس بڑی سرجری کی ضرورت ہے کہ خود غرضی کی سیاست سے چھٹکارا ملے ۔سسٹم میں جب اجتماعی شعور کا فقدان، اقتدار کالالچ، مفادات کاحصول ، جلسے جلوس اور دھرنوں کی سیاست رہ جائے تو وہ پارلیمانی نظام نہیں اسکا چربہ رہ جاتا ہے جن ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت نے جڑیں مضبوط کیں وہاں الیکشن میں صرف دویاتین پارٹیاں حصہ لیتی ہیں جیتنے والی پارٹی اپنی مدت پوری کرتی ہے اور ہارنے والی پارٹی اپنی ہار کو انا کا مسئلہ بنا کر جیتنے والی پارٹی کیلئے مشکلات پیدا نہیں کرتی ۔ سیاسی اقدار کی کھیتی میں دھونس دھاندلی اور جھرلو انتخابات کے جو بیج بوئے اسکے اثرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ کسی نے ایڈم اسمتھ سے سوال کیاکہ کیا گڈ گورننس اور پارلیمانی نظام لازم وملزوم ہیں تواس نے کہا کہ جو نظام عوام کی بقا کا سوچتا ہو چاہے جمہوری ہویا صدارتی اس پر عمل پیرا ہونا ازحد ضروری ہے ۔
٭…٭…٭