پاکستان کا مستقبل بڑا تاریک نظر آتا تھا۔ فوج مایوسی کے علاوہ ذاتی اعتماد بھی کھو چکی تھی۔ فوج میں بغاوت کے آثار پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ سیاسی اور معاشی حالات بھی بہت گھمبیر تھے۔ ہر شخص پریشانی کا شکار تھا۔ ملکی تاریخ کے ایسے نازک موقع پر جناب بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور قوم کو کرشماتی لیڈرشپ سے مایوسی اور پریشانی کی دلدل سے نکالا۔ فوج کا ذاتی اعتماد بحال کیا۔ بھارت سے اپنے قیدی اور کھویا ہوا علاقہ واپس لیا اور پاکستان ایک دفعہ پھر اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس بلا کر ملکی عزت ووقار میں اضافہ کیا۔قوم کو نیا آئین دیا۔قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے قوم کو جوہری توانانی کا تحفہ دیا جو تاحال کسی اور مسلمان ملک میں نہیں۔ بھٹو صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ہماری تاریخ کا ایک درخشاں ستارہ ہیں جن کے بغیر ہماری تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب بھٹو صاحب ایک عظیم لیڈر تھے۔ 1965کی جنگ کے متعلق انکی اقوام متحدہ میں تقریر ایک تاریخی کارنامہ تھا جس پر ’’ ٹائم میگزین‘‘ نے لکھا تھا ’’صدر ایوب خان کا آگ اگلتاوزیر خارجہ‘‘۔
بشری کمزوریاں ہر انسان میں ہوتی ہیں۔ بھٹو بھی ان سے مبرا نہیں تھے۔ جہاں انکے چاہنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے وہاں انکے خلاف اعتراضات کی بھی کمی نہیں۔ ان پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سا لمیت بچا سکتے تھے۔ وہ واحد لیڈر تھے جو ایسا کرسکتے تھے۔ مگر افسوس کہ انہوں نے اپنا قومی فرض ادا نہ کیا۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار ہیں۔ وہ بلاول کی طرح لفظی طور پر جمہوریت کے چیمپئن تھے مگر جب وقت آیا تو اقتدار کیلئے انہوں نے اصل حقدار کو کک مار کر ملک ہی توڑ دیا۔ ان پر دوسرا بڑا اعتراض ہے کہ وہ اپنے مطلب کیلئے اصولوں کی پرواہ کئے بغیر کچھ بھی کر سکتے تھے۔ انہیں شخصیات کو شیشے میں اتارنے کے ہنر میں ملکہ حاصل تھا۔ دوسرے الفاظ میں ’’مکھن‘‘ لگانے کے ہنر میں ماہر تھے مثلاً اسکندر مرزا کو قائد اعظم سے بڑا لیڈر قرار دینا یا ایوب خان کو ڈیڈی کہنا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ جب مطلب پورا ہو گیا تو اسی ڈیڈی کیخلاف تحریک چلائی اور انکے جنازے تک میں شامل نہ ہوئے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ فوج سے انہیں خاص ناراضگی تھی۔ پہلے انہوں نے 1965 کی جنگ چھیڑی کہ فوج کو مار پڑیگی مگر انکی خواہش پوری نہ ہوئی۔ 1971کی جنگ کے بعد یہ فوج کو جنگی قیدی بننے سے بچا سکتے تھے لیکن فوج کو سبق سکھانے کیلئے انہوں نے جان بوجھ کر دشمن کی قید میں جانے دیا۔ پھر مشرقی پاکستان میں فوج کی ’’سرنڈر‘‘ والی فلم صرف فوج کی تضحیک کے مقصد سے کئی دفعہ یہاں پی ٹی وی پر چلوائی۔ ائیر فورس چیف اور آرمی چیف مل کر بھٹو صاحب کو اقتدار میں لائے تھے لیکن محترم نے فورسز کے انہی دونوں چیفس کو اس طرح سروس سے نکالا جس طرح ایک چپڑاسی کو بھی نہیں نکالا جاتا۔ پھر فوج کے مقابلے میں ایف ایس ایف کے نام سے ایک نئی فورس قائم کی ۔ اپنے بنائے ہوئے آرمی چیف ضیاء الحق کو ’’میرا منکی جرنیل‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ اور سب سے تکلیف دہ بات فوج کو اپنے ہی عوام پر گولی چلانے کا حکم دیا۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جس کسی نے بھی بھٹو صاحب کی کسی بھی بات سے اختلاف کیا چاہے وہ اپنی ہی پارٹی کے لوگ کیوں نہ ہوں سب کا مقدر قید اور سخت سزائیں بنیں۔
جہاں تک محترمہ بے نظیر صاحبہ کا تعلق ہے شاید وہ مسلم دنیا کی سب سے پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ بہت با صلاحیت خاتون اور باصلاحیت لیڈر تھیں۔ ان کے کارنامے تو اس وقت ذہن میں نہیں آرہے لیکن جو اس دور کی اخباری خبریں ہیں وہ حاضر خدمت ہیں۔ سب سے پہلی چیز جو اس دو رمیں زبان زد خلق ہوئی وہ محترم زرداری صاحب کے متعلق تھی۔ وہ پہلے مسٹر ٹین پرسنٹ مشہو رہوئے لیکن ترقی کرتے کرتے ہنڈرڈ پرسنٹ بن گئے۔ سرے محل بھی شاید اسی دور میں خریدا گیا۔ پھر ایک قیمتی نیکلس کا سیکنڈل سامنے آیا جس کی قیمت سرکاری خزانے سے ادا کی گئی۔ اسی دور میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان آئے تو محترمہ نے پنڈی اسلام آباد سے کشمیر کے تمام بورڈز اتروا دئیے۔ ضیاء الحق مرحوم کے دور میں خالصتان تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی لیکن محترمہ نے اس تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے تحریک کے ممبران کی لسٹ بھارت کو دیدی جنہیں بھارت نے چن چن کر مار دیا۔ بہرحال دونوں ہماری تاریخ کے اہم جمہوری لیڈر تھے خدا نہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38