26 جنوری کو بھارت میں یوم جمہوریہ بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ 1935 سے ملک ہندوستان میں انگریزوں کا بنایا ہوا جو ایکٹ و قانون نافذ تھا دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949 میں نیا جمہوری قانون مرتب کرکے انگریزوں کا بنایا ہوا قانون منسوخ کر دیا۔اسکے بعد 26 جنوری 1950 کو ہندوستان کا بنایا ہوا قانون مکمل طور پر نافذ کر دیا گیا۔یوں ہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوگیا۔اس آئین کے نفاذ کی اہم وجہ 26 جنوری 1930 کا اہم دن تھا جب انڈین نیشنل کانگرس نے'' خودمختار ہندوستان '' کا نعرہ بلند کیا۔قارئین آج دنیا کے بیشتر حصوں میں جمہوری نظام سیاست قائم ہے کیونکہ جمہوری نظام کو دنیا تہذیب وتمدن اور فطرت کے طور پر تسلیم کرتی ہے کہ اس میں کھانے پینے کی آزادی سے لے کر مرضی اور پسند کے ادارے قائم کرنے،پسندیدہ حقوق کا مطالبہ کرنے کی آزادی شامل ہوتی ہے لیکن افسوس ! جس آئین و قانون کی رو سے رنگ ونسل،ذات پات کی بنیاد پر تفریق کیے بغیر بھارت میں رہنے کا جمہوری حق حاصل ہوا تھا۔آج اس قانون کی مکمل طور پر دھجیاں اڑا کر مودی حکومت مذہبی منافرت کو سرکاری طور پر پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔اقلیتوں کی عبادات میں رخنہ اندازی کی جا رہی ہے بلکہ ان کے سکونت کے طریقوں پر بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ مخص گاؤ کشی کے نام پر اب تک ہزاروں مسلمانوں کو بربریت اور درندگی سے موت کے منہ میں دھکیلا جا چکاہے۔مسلمانوں سمیت عیسائوں،سکھوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔مودی کو جمہوریت و قانون کی ABC نہیں آتی۔اس کے کئی فیصلوں سے نہ صرف جمہوریت کی روح مجروح ہوئی ہے بلکہ ملک کے مختلف طبقات بالخصوص اقلیتوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ مودی کے آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے نام نہاد جمہوری نظام سے بھارتی عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ہر 26 جنوری کو بھارت بڑی ڈھٹائی کے ساتھ '' یوم جمہوریہ'' منا رہا ہوتا ہے جبکہ مظلوم کشمیری اس حقیقت کو طشت ازبام کرنے کے لیے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری زبردست احتجاج کرتے ہیں۔ نام نہاد یوم جمہوریہ منانے والے ملک بھارت میں جمہوریت کی حالت کا اندازہ اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی جانب سے 2019 میں جاری کیے گئے جمہوریت کے عالمی انڈکس سے کیا جا سکتا ہے۔ جس میں دنیا کا بڑا جمہوری ملک 51ویں پوزیشن پر آچکا ہے۔ 1950 میں قانون ساز اسمبلی و ہندوستانی بزرگوں نے جمہوریت سے جو توقعات کی تھیں وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکیں۔ابھی تازہ تازہ مثال سامنے ہے کہ زرعی قوانین پر مودی حکومت کے خلاف 2 ماہ سے احتجاج کرنے والے کسان یوم جمہوریہ کے موقع پر ہونے والی پریڈ کے دوران دارالحکومت دہلی میں داخل ہوئے اور مودی کی ناکام پالیسیوں پر نہ صرف احتجاج کیا، بلکہ لال قلعہ پر خالصتانی جھنڈا گاڑھ کر کسان سکھوں نے انٹرنیشنل سطح پر پیغام دیا کہ ہم بھارت کا حصہ نہیں ہیں۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ اس وقت لال قلعہ پر خالصہ پنتھ کا جھنڈا لہرایا گیا کہ جب حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس تاریخی لال قلعہ کو اقوامِ متحدہ کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کروایا جائے۔دوسری جانب بھارتی میڈیا مخصوص رنگ کی صحافت کر رہا ہے جس میں جمہوریت کی سفیدی گم گئی ہے۔ بکاؤ میڈیا کسانوں کو کبھی پاکستانی کہتا ہے کبھی کانگریسی پارٹی سے جوڑتا ہے تو کبھی آتنگ وادی کہہ کر اپنی جنتا کو شانت کرنے کے نئے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ کسانوں نے اپنے حقوق کی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مودی سرکار کو 2 فروری کا ٹف ٹائم دیا ہے۔ کسان سکھ رہنماؤں کا اعلان ہے اسکے بعد بھی اگر انکے جائز مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ پارلیمنٹ بند کر دیں گے ہو سکتا ہے کہ ہر چیز بند ہونے پر ہندوستان کا پہیہ جام ہو جائے۔صد افسوس کہ مودی آئین کو تو لچکدار بنا رہا ہے مگر سیاسی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کرتے ہوئے اپنے قوانین کو رعایا کے لیے اتنا سخت کر رہا ہے جس پر عوام بالخصوص اقلیتی حلقوں میں شدید بے چینی ہے۔ اسی گھبراہٹ اور ناراضگی کا مشاہدہ اقوام عالم نے 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے دن کیا کہ بھارت کے یوم جمہوریہ کا جنازہ ہی نکل گیا۔ مودی اس زعم میں ہے کہ اکھنڈ بھارت کے ضمن میں اسکا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اصل میں مودی ہی وہ مہامنتری ہے جو بھارت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024