طلباء یونین کی بحالی یا خوں ریزی کا پروانہ ؟
آئے روز نت نئے ٹیکسوں میں اضافہ‘ ایف بی آر کی بے لگام تاجر دشمن پالیسیوں‘ تیز رفتاری سے بلندیوں کی جانب رواں دواں مہنگائی‘ چوری‘ ڈکیتی‘ معصوم بچوں کو اغوا کے بعد ان پر جنسی تشدد اور سٹریٹ کرائمز جیسے سلگتے گھمبیر مسائل اور حکمرانوں کی بے حسی اور ہر ناکامی کے بعد یو ٹرن‘ کشمیر جیسے عالمی مسئلے پر سردمہری اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے شب و روز فکرمند اور پریشان رہنے والے والدین کو ان دنوں ایسے ڈراؤنے خواب دکھائی دینا شروع ہو گئے کہ وہ چیخ مار کر بسترسے اٹھ بیٹھتے ہیں تو پھر ان کو انجانے اندیشوں کی بناء پر صبح تک نیند نہیںآتی۔
سالہا سال تک تعلیمی اداروں میں خوں ریزی‘ قتل و غارت‘ قابل احترام اور باوقار اساتذہ کی آئے روز توہین اور بے حرمتی جیسے قابل مذمت اقدامات کی عملاً بیخ کنی کے لئے طلباء یونین پر پابندی کے بعد پورے معاشرے نے بالعموم اور والدین نے بالخصوص سکھ کا سانس لیا تھا وہ لوگ جو ہر معاملے میں صدر جنرل ضیاء الحق پر تنقید کے کوڑے برساتے تھے۔ انہوں نے بھی 1989ء میں ضیاء الحق کے طلباء یونین پر پابندی لگانے والے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا جن والدین کے بچے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں وہ ان دنوں سخت ڈپریشن کا شکار ہیں یہ پریشان حال اور مضطرب والدین دکھی دل کے ساتھ حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ عمران خان صاحب! آپکے بخشے ہوئے گھمبیر مسائل و مشکلات کے تحفے جو پہلے ہی ہم سے سنبھالے نہیں جا رہے‘ انکے بعد طلباء یونین کی بحالی کی صورت میں امن دشمن‘ درس و تعلیم اور احترام انسانیت کی تباہ و بربادی جیسا فیصلہ کرنے کی آخر کیوں ضرورت آن پڑی ہے؟ اور اس سوال کا جواب بھی حکمرانوں کے ذمہ ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ طلباء یونین کی بحالی کا فیصلہ بھی عالمی استعمار کے دئے ہوئے ایجنڈے کی کوئی شق تو نہیں ہے؟
بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کی فہم و فراست اور بصیرت نے طلباء کے سیاسی آلودگی میں ملوث ہونے کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے 19 اگست 1936ء کو اسلامیہ کالج کلکتہ میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ان کو انتباہ کیا تھا کہ ’’طلباء صرف اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دیں اور ملک کی سرگرم اور جارحانہ سیاست میں قطعی طورپر حصہ نہ لیں بلکہ ملک اور آس پاس کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے سختی کے ساتھ اجتناب کریں۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیمیں فعال و سرگرم تھیں ان دنوں پڑھائی کم اور غنڈہ گردی و دنگا فساد زیادہ ہوتا تھا بدقسمتی سے پہلے ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق بہت سے مسائل توجہ طلب ہیں۔
بلاشبہ جن دنوں طلباء یونینز فعال و سرگرم تھیں انہی وقتوں میں ہی بہت سے طالب علم رہنما ان تعلیمی اداروں سے کندن بن کر نکلے اور ملکی سیاست میں بہت بلند مقام حاصل کیا جن میں مخدوم جاوید ہاشمی کا نام سرفہرست ہے جنہیں جنوری کے یخ بستہ موسم میں برف کے بلاک پر برہنہ لٹا کرتشدد کیاگیا؟‘‘ زمانہ شاہد ہے کہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے ان کی عمر بیت گئی مگر انکے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی‘ ان نمایاں افراد میں حافظ ادریس اور جہانگیر بدر بھی شامل ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں ایک دوسرے کے ساتھ سٹوڈنٹس یونین کی صدارت کے لئے پنجہ آزما ہوئے اور حافظ ادریس نے جہانگیر بدر کو چاروں شانے چت کر کے فتح حاصل کی۔ لیاقت بلوچ‘ فرید پراچہ‘ عبدالشکور‘ منور حسن‘ مسعود کھوکھر‘ راجہ انور‘ میاں احسان باری‘ عبدالمالک مجاہد اور حسین حقانی جیسے لوگ ان دنوں طلباء سیاست پر چھائے رہے جو بعدازاں قدآور سیاست دان بنے۔ شیخ مجیب الرحمان بھی ’’مرحوم مشرقی پاکستان‘‘ میں طلباء سیاست بہت فعال اور مقبول رہنما تھے جو بعد میں بدقسمتی سے بانی بنگلہ دیش بنے۔
جن دنوں طلباء یونینز سرگرم تھیں اس زمانے کے حوالے سے چند مثبت پہلو بھی بتائے جا سکتے ہیں مگر اس کے منفی پہلو اتنے زیادہ ہیں انکی خرابیوں اور برائیوں نے گنتی کی چند اچھائیوں کو پاؤں تلے روند کر انہیں بے حیثیت کر کے رکھدیا ہے طلباء سیاست میں فعال و سرگرم رہنے والی تمام تنظیمیں بلاامتیاز رنگ و نسل‘ بلاتفریق ’’سرخ و سبز‘‘ سب کی سب اصول و ضوابط اور اخلاقی اقدار کے فقدان کا شکار تھیں۔ بس فرق اتنا کہ کسی کو تھوڑا کم اور کسی کو تھوڑا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ جناب لیاقت بلوچ کے صدارتی دنگل میں دس بارہ روز تک پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس کے ہاسٹل میں رہنے کا موقع ملا کہ ایک دن اچانک ہر جانب سے تڑاخ‘ تڑاخ گولیاں چلنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں یہ ایک طلباء تنظیم کی طرف سے ابتداء تھی بس پھر کیا تھا… پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ دس کے قریب جیپیں آ کر رکیں‘ پٹ سن کی بڑی بوریوں میں بھرا ہوا جدین ترین اسلحہ مقابل تنظیم کے طلباء میں تقسیم ہونا شروع ہو گیا۔ کیمپس کی سڑکوں کے کناروں پر لگے پودوں میں مورچہ زن ہو کر دونوں فریق ایک دوسرے پر فائر کرتے رہے۔ چند گھنٹوں کے اندر بیس کے قریب نوجوانوں کے تڑپتے لاشے ہسپتال کی جانب جانا شروع ہو گئے اسی طرح ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ہر سال خون کا نذرانہ دینے والے طلباء کی مائیں اور بہنیں اب طلباء یونین کی بحالی کا شور سن کر حکمرانوں کو دعائیں دیں گی یا کچھ اور…؟
استاد اور شاگرد کا مضبوط اور قابل احترام رشتہ ان دنوں اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے انتہائی قابل تعظیم وائس چانسلر علاؤ الدین صدیقی کو طالب علم رہنماؤں نے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لا کر مارا پیٹا‘ یونیورسٹی آف انجینئرنگ آف ٹیکنالوجی لاہور کے محترم وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم کو ایک طلباء تنظیم اغوا کر کے ہمراہ لے گئی قائم مقام وائس چانسلر ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل کو طلباء ان کے دفتر سے ننگے پاؤں گھسیٹتے ہوئے سڑک تک لے آئے۔ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر عبدالعلی خان مسلح ساتھیوں کے بغیر کہیں جا نہیں سکتے تھے۔
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں طلباء کی ایک بڑی تقریب کے مہمان خصوصی حیات شیر پاؤ ایک بم دھماکے کی نذر ہو کر خالق حقیقی کے پاس جا پہنچے۔ بہت غور و فکر کے بعد طلباء یونین کی بحالی کا کوئی مثبت پہلو سمجھ نہیں آ سکا سوائے اس پرانی خوں ریزی‘ قتل و غارت‘ تعلیم کے ضیاع‘ اساتذہ کی بے حرمتی‘ آئے دن کی توڑ پھوڑ ‘ ہڑتالوں اور پرتشدد مظاہروں اور جگہ جگہ روڈ بلاک کے نتیجہ میں موجودہ تباہ حال معیشت کو مزید کمزور کر کے قبر کے دھانے تک پہنچانے کے۔