جسٹس قاضی فائزکیس،جج شیشے کے گھرمیں رہتاہے،جج بھی قابل احتساب ہے،سپریم کورٹ
اسلام آباد( خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی میں جسٹس عمر عطا بندیال کا کہناہے کہ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے جسٹس منیب اختر نے ریمار کس دیئے اگر شکایت کو نہیں سنا جاتا تو پھر شکایت کنندہ کہہ سکتا ہے کہ میری حق تلفی ہے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سر براہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار کے وکیل رشید رضوی کے دلائل مکمل کر لئے اپنے دلائل کے دوران وکیل رشید اے رضو ی نے کہا عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے ،جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گاحکومت اور ایجنسیوں کو آزاد عدلیہ کبھی پسند نہیں آتی دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے، پاکستان میں ججز کو ہٹانا سب سے آسان ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ آئین پر تنقید کر رہے ہیں؟ ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آہین میں واضح ہے،سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیں،جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے، جج بھی قابل احتساب ہے، کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی،موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں،جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے، وکیل رشید اے رضوی نے کہاآرٹیکل 209 میں اپروچ میں تحفظ ہونا چاہیے گلاس ہارس پر شوٹ کرنے والے شوٹرز صرف دو ہیںایک صدر مملکت اور دوسری سپریم جوڈیشل کونسل، ریفرنس کی سمری انکوائری بشمول جاسوسی پر مبنی ہے12 مئی 2007 سانحے پر فیصلہ جسٹس کے کے آغا نے دیاجسٹس کے کے آغا کو بھی ریفرنس میں نشانہ بنایا گیا،وسیم اختر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ 12 مئی کو اسکی ہدایات پر کراچی میں سڑکیں بلاک ہوئیں،میں نے دیوار کو کود کر ججز کو سندھ ہائیکورٹ میں جاتے دیکھا ہے بیرسٹر فروغ نسیم 12 مئی 2007 کے مقدمہ میں ایڈووکیٹ جنرل تھے،اس وقت فروغ نسیم وزیر قانون ہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا3 نومبر کو آئین کے ساتھ کیا ہوا تھا، رشید اے رضوی نے کہا3 نومبر 2007 کو وہی ہوا جو 12 مئی 2007 کو ہوا،یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ کرنا چاہتے ہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہااب تو آئین موجود ہے، جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا، رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل شروع کئے سلمان اکرم راجہ کا کہناتھا اے آر یو یونٹ نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیافیڈرل گورنمنٹ رولز کے تحت اے آر یو یونٹ جو ایسا اختیار نہیں تھاصدر مملکت سے اجازت لیے بغیر اے آر یو مواد اکھٹا نہیں کرسکتا تھااے آر یو کو آغاز میں یہ معلومات صدر مملکت کے سامنے رکھنی چاہیے تھیں پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے،جب تک قانون سازی نہ ہو تب تک طے شدہ طریقہ کار اپنانا پڑے گا، اعلی عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا، اے آر یو یونٹ نے انکوائری کے ذریعے ججز کے خلاف مواد تلاش کرنے کی کوشش کی، جسٹس منیب اختر نے کہا کسی جج کے مس کنڈکٹ کا ٹیکس اتھارٹی سے کوئی تعلق نہیں، جسٹس عمر عطا بند یال نے کہا 2010 میں افتخار چودھری کیس کی گائیڈ لائینز ایکزیکٹیو پر لازم نہیں ہیں، جسٹس منیب اختر کا کہناہے اگر شکایت کو نہیں سنا جاتا تو پھر شکایت کنندہ کہہ سکتا ہے کہ میری حق تلفی ہے سلمان اکرم راجہ نے کہا جج کا بھی ڈیو پراسس پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایک عام شہری کا ہے، یہ معاملہ عدلیہ کے وقار کا ہے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہایہ معاملہ ٹیکس کا نہیں ہے مس کنڈکٹ کا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل ذرائع آمدن کو دیکھ رہی ہے، کیس کی مزید سماعت آج پھر ہوگی۔