بحرانوں میں گھری معیشت اورنا قص کا رکردگی، ایک جائزہ
یوں تو ملکی معیشت عرصہ دراز سے زوا ل کا شکار ہے، لیکن موجودہ حکومت کے اقتد ا ر میں آنے سے لیکر اب تک حا لات انتہا ئی خراب ہو چکے ہیں جن کی بہت سا ری وجوہا ت ہیں، جن پر مختصراً بحث کریں گے۔ پا کستان ایک زرعی ملک ہے، زرعی پیدا وار خصوصاً گندم، چا ول اور گنا وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے جو ملکی ضروریا ت کیلئے نہ صرف کافی ہے بلکہ بر آمد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن چند وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو رہا اور عرصے سے کچھ اشیاء مثلاً آ ٹے اور چینی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے جس پر قا بو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو بد انتظا می ہے، کہ اس کو بہتر طریقے سے عوام تک پہنچا یا نہیں جا رہا اس کے علاوہ کرپشن بھی ا یک وجہ ہے جو کہ ما ضی میں بھی رہی ہے۔ یعنی گندم سرکا ری گو دا موں میںعر صہ دراز سے پڑی رہتی ہے اور عوام تک پہنچتے ہی خراب ہو جا تی ہے، کھا نے کے قا بل نہیں رہتی۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے گندم کی خریداری میں غیر ضروری تا خیر بھی ایک وجہ ہے، جس سے ایک طرف تو کا شتکا روں کو وقت مقررہ پر منا سب دام نہیں ملتے اور عام کو بھی ضرورت کے وقت آ ٹا نہیں مل سکتا جبکہ چا ر لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کی گئی، یہی حا ل چینی کا ہے، شگر ملوں کیطرف سے کا شتکاروں سے منا سب قیمت پر گنا خرید نہیں کیا جا تا، ان کو بہت کم قیمت دی جا تی ہے اور اس کی وجہ ہر عام و خا ص کو معلوم ہے، یعنی شگر مل ما لکان جا گیر دار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو غیر ضروری طور پر منا فع خوری کے لئے ایسا کرتے ہیں کیونکہ ان کی رسا ئی اوپر تک ہوتی ہے اور ان پر کوئی ہا تھ بھی نہیں ڈ ا ل سکتا، نتیجتاً عوام کو شدید مشکلا ت کا سا منا کر پڑ تا ہے، جیسا کہ آ جکل ہو رہا ہے۔ صا حبان اقتدار ان حا لات میں کوئی خا طر خواہ اقدا مات نہیں کر رہے، وفا قی اور صو بائی حکوت (صوبہ سندھ) صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے، سیا سی دکانیں چمکا نے کے علاوہ کوئی عملی قدم تا حا ل نہیں ا ٹھا یا جا سکا۔ اب حکومت سندھ نے گندم کی قیمت مقرر کردی ہے، امید ہے کہ شا ید عوام تک اس کے کچھ ثمرا ت پہنچ سکیں۔لیکن چینی کی قیمت تقریبا" 85 روپے فی کلو گرام سے تجا وز کر چکی ہے، اس سلسلے میں اب تک کوئی خصوصی اقدا ما ت ہو تے ہوئے نظر نہیں آئے۔ اب خبریں یہ ہیں کہ گندم اور چینی درآمد کی جا ئے گی، اگر ایسا ہے تو پھر سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ اپنی ضروریا ت کو مد نظر رکھ کر منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی اور گندم اور چینی برآمد کیوں کی گئی؟ اس کے علاوہ سبزی، فروٹ، دا لیں اور دوسری ضروریا ت زندگی کی چیزیں بہت زیا دہ مہنگی ہو گئی ہیں، جن کی قیمتوں کو قا بو میں رکھنے کیلئے بھی سخت اقدا مات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مصیبت کے ما رے ہوئے عوام کی مشکلات میں کچھ کمی کی جا سکے اور آ ئندہ کیلئے بھی ایسے اقدا مات کو یقینی بنا یا جا ئے تا کہ عوام کے مسا ئل بھی حل ہو سکیں اور حکومت کو بھی عوام کے لئے ترقیا تی کا م جا ری رکھنے کیلئے وقت مل سکے۔اس سلسلے میں بعض مبصرین نے اظہا ر خیا ل کرتے ہوئے کہا ہے کہ آٹے، چینی اور اس طرح کے بحران مصنوئی طور پر پیدا کئے جا رہے ہیں، مثلاً کچھ عرصہ پہلے ٹما ٹر کی قیمت 300 روپے فی کلو، اسی طرح اور سبزیوں اور پھلوں کا بحران، بجلی، گیس، پیٹرول کا بحرا ن اور آنے والے دنوں میں اس طرح کے مزید بحران د رپیش ہو سکتے ہیں، جس کا مقصد عوام کی توجہ مہنگا ئی، بیروزگا ری اور اسی طرح کے بحرا نوں میں الجھا کر رکھا جا ئے، تا کہ عوام صحت، تعلیم، ملکی ترقی اور سا لمیت کے با رے میں نہ سوچ سکیں اور نہ ہی اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں، جبکہ امریکہ، یورپ دوسرے ترقی یا فتہ مما لک کے عوام ملکی معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں، اس لئے وہاں بحران تو دور کی بات ہے، وہا ں ایسی با تیں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ پا کستا ن میں اس مسئلے کی ایک خا ص وجہ آ ئی۔ایم،ایف اور دیگر اداروں سے لئے گئے قرضوں کا بوجھ ہے، جب تک اس قرض سے نجا ت حا صل نہیں کی جا تی، اس طرح کے بحران درپیش رہیں گے۔