بدھ3 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 29 ؍ جنوری2020 ء
افغان صدر کے حالیہ ٹویٹس داخلی معاملات میں مداخلت ہیں: دفتر خارجہ پاکستان
اب کیا کیا جائے اس آتش زیرپا کا جو افغان حکمرانوں کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ شاید وہ آرام سے بیٹھنے کی بجائے بخیہ گری کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔ جبھی تو جب کوئی کام نہ ہو تو پاکستان کے خلاف ٹویٹس لکھ کر اپنے ہاتھوں کی خارش دور کرتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان ہے جو ہر ممکن طور پر کوشاں رہتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس کے برادرانہ تعلقات بہتر ہوں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستانی حکمران ان کی ہر غلطی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ان کی ہر سازش اور پاکستان دشمن سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ نجانے کیوں لگتا ہے، افغانستان کے ناسمجھ حکمران اسے پاکستان کی کمزوری خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ بدامنی کا شکار ، افلاس کا شکار ملک خانہ جنگی اور غیر ملکی یلغار سے محفوظ رہے۔ وہاں بھی تعمیر و ترقی کی راہ کھلے۔ مگر افغان صدر کو دیکھ لیں وہ بیٹھے بٹھائے یکدم مودی اور بھارت کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کے پاکستان مخالف جملے ان کے اندرونی سیاہ جذبات کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ جس پر دفتر خارجہ نے فوری طور پر انہیں آڑے ہاتھ لیتے ہوئے ایسے کاموں سے باز رہنے کا کہا ہے۔ یہ تو شکر ہے افغان صدر ٹک ٹاک استعمال نہیں کرتے۔ کیا پتہ چھپ کر کرتے ہوں اور فارسی و پشتو فلمی گانے سنتے ہوں۔ اگر اب انہیں ٹک ٹاک کا شوق سوار ہو گیا تو وہ حریم شاہ اور صندل خان کے مقابلے میں بھی آ سکتے ہیں۔ ان کی یعنی اشرف غنی اور نریندر مودی کی جوڑی بھی بڑی جچے گی ایک ساتھ ویسے بھی دونوں ہی کھوٹے سکے کے دو رخ لگتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مجبور ہیں، معاف کرنا۔ ڈاکو سٹور سے آٹا، دال اور مصالحہ جات لوٹ کر لے گئے
ہائے ری مہنگائی۔ اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ ’’باقی جو بچا وہ مہنگائی مار گئی‘‘ ڈاکو اور چور بھی اب آٹا ، دال ، چاول ، چینی ، گھی اور مصالحہ جات پر ہاتھ صاف کرنے لگے ہیں۔ صرف یہی نہیں یہ لوگ اب غیرت قومی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء صرف لے جاتے ہوئے دکاندار کے نام رقعہ بھی چھوڑ جاتے ہیں کہ ’’بھیا ہمیں معاف کرنا ہم مجبور ہیں۔‘‘ اس سے قبل تو ایک واردات میں ڈاکوئوں نے ایک سماجی شخصیت کو اس وعدہ پر تہجد ادا کرنے کی اجازت دی تھی کہ وہ نماز کے بعد ان کے لیے بددعا نہیں کریں گے۔ ڈاکوئوں اور چوروں کی اس قسم کی درویشانہ وارداتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی نے بڑے بڑے چوروں کو بھی قطب بنانا شروع کر دیا ہے۔ اب کس کی مجال ہے کہ وہ حکومت یا وزیراعظم کے مہنگائی کے حق میں بیانات کیخلاف کچھ بول کردکھائے۔ انہی روحانی کمالات کے باعث وزیراعظم نے گزشتہ روز بھی مہنگائی کے خلاف کچھ بولنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے وزراء کو بھی تلقین کی کہ وہ مہنگائی سے بالکل نہ گھبرائیں اس کے خلاف واویلا نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ قوم آزمائش میں ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے وزراء کو مہنگائی کے خلاف بولنے سے روک دیا ہے کہ عوام جو پہلے سے آزمائش میں ہیں انہیں مزید آزمائش میں پریشانی میں نہ ڈالا جائے۔ اس لیے چپ رہنا ہی بہتر ہے۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ وزیر اعظم کے ارشاد ’’مشکل حالات سے نہیں گھبرانا چاہئے‘‘ کے مطابق اب ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں اضافہ سے لٹنے والے اور لوٹنے والے دونوں مطمئن رہیں۔ یہ مشکل وقت ہے اس میں ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔ بس عوام الناس آٹا، دال ، چاول، چینی ، گھی کو بھی نقدی اور زیورات کی طرح سنبھال کررکھیں۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں ٹریفک روکنے پر شہریوں کا مسلسل ہارن بجا کر احتجاج
انتظامیہ کہیں کی بھی ہو اسے عوام سے زیادہ حکمرانوں کی فکر ہوتی ہے۔ اگر کسی اعلیٰ شخصیت نے 9 بجے کسی معروف شاہراہ سے گزرنا ہوتا ہے وہ سڑک 5 بجے ہی بند کر دی جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سڑک اوراس کے اردگرد کے علاقے میں عملاً کرفیو جیسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کے مکینوں اور اس سڑک پر سفر کرنے والوں کو گھنٹوں ٹریفک بند رہنے کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ بارات ہو یا جنازہ یا کوئی ایمبولنس ، گھنٹوں ٹریفک کی بندش کا شکار رہتی ہے۔ اب اس پر کئی مرتبہ شہریوں نے احتجاج کیا ۔ میڈیا نے آواز اٹھائی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ اب کراچی والے مزاج کے کچھ زیادہ ہی تیز بھی ہیں اور چالاک بھی۔ انہوں نے وزیراعظم کی آمد کے موقع پر ٹریفک بند کرنے پر احتجاج کا انوکھا طریقہ نکالا جہاں ٹریفک بند تھی وہاں شہریوں نے اپنی گاڑیوں کے ہارن مسلسل بجانا شروع کر دئیے۔ یہ تو شکر ہے اعلیٰ شخصیات کی گاڑیوں کے شیشے بند ہوتے ہیں ورنہ وہ ضرور اس شور پر کان دھرتے اور اس کی وجہ پوچھ کر اس مسئلے کا کوئی حل نکالتے۔ اس لیے اس احتجاج کا انہیں تو پتہ نہیں چلا البتہ ڈیوٹی پر موجود اہلکار اور خود عوام کے کانوں کے پردے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
اسرائیلی پاسپورٹ ہولڈر سعودی عرب کا دورہ نہیں کر سکتے۔ سعودی وزیر خارجہ
یقین تو کل بھی کسی کو نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اسرائیل نے اپنے شہریوں کو پاسپورٹ ہولڈروں کو سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی ہے اور سعودی حکومت خاموش ہے۔ ہمارے ہاں خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا جاتا ہے۔ پھر بھی فوری ری ایکشن دینے میں سب محتاط رہے۔ اسلام دشمن قوتیں تو اس خبر پر خوشیاں مناتی پائی گئیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے شیطان کی مجلس شوریٰ میں کوئی جشن منایا جا رہا ہو۔ مگر اب سعودی وزیر خارجہ کی طرف سے کھلے الفاظ میں اس اعلان کے بعد کہ کوئی اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والا سعودی عرب کا دورہ نہیں کر سکتا۔ اس خوشیوں بھری مجلس میں ماتم بکھیر دیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ ورنہ لوگ پریشان ہو جاتے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن اور قاتل غاصب ملک اب اسلام کے قلعے میں داخلے کے لیے پر تولنے لگا ہے۔ شکر ہے سعودی عرب کے وضاحتی بیان کے بعد وہ گرد بیٹھ جائے گی جو اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے اڑائی گئی اور اُمت مسلمہ کے خلاف اسلام دشمنوں کی چالیں ناکام ہوں گی۔