خبر ہے کہ وزیراعظم پاکستان مہنگائی کا جن بے قابو رہنے کی وجہ سے اپنی معاشی ٹیم پر برہم ہیں، خبر ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں مس گائیڈ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کے حوالے سے عوام میں جو پیغام گیا وہ مثبت نہیں ہے۔
قارئین کرام جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں تو ذہن پر زور ڈال کر بالخصوص گذشتہ ایک برس میں اس اہم ترین انسانی مسئلے پر سائرن کو یاد ضرور کیجئے گا ہم نے تواتر سے اس انسانی مسئلے پر مہنگائی کی وجوہات ان کا حل اور عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹوں پر حکومت، انتظامیہ اور متعلقہ وزارتوں کو تجاویز دی ہیں بدقسمتی ہے کہ کسی طرف سے بھی اس حوالے سے عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب زندگی گذارنے کی ضروری اشیاء پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مسئلے پر ہم نے وزیراعظم عمران خان کا ذاتی حیثیت میں تمام مسائل سے آگاہ کیا انہیں بتایا کہ اصل مسائل کہاں ہیں اور بازار میں قیمتوں کو قابو میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ تجاویز کو سنا گیا لیکن بات گفتگو سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لگ بھگ ایک سال تک عملی طور کام کرنے کے بعد ہم نظام سے الگ بیٹھے ہیں اس دوران درجنوں ٹی شوز بازاروں اور سبزی منڈیوں میں کیے ہیں کسی ایک دفعہ بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ عوام کے درمیان رہتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی عوامی خدمت اور عام آدمی کی فلاح کے اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے منفی القابات سے بھی نوازا گیا، روڑے اٹکائے گئے، راستہ روکنے کی کوششیں کی گئیں حتیٰ کہ دوست دشمنوں میں بدل گئے یہ سب تجاویز ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئیں اور آج حکومت کا ہر اہم شخص اس بات سے اتفاق کرتا دکھائی دے رہا ہے، شیخ رشید بھی بول دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ حالات کتنے قابو سے باہر اور گڑبڑ کہاں ہے۔
اشیاء خودونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے کبھی کوئی سامنے آتا ہے اور کبھی کسی ذمہ داری دی جاتی یے سب لوگ اپنا اپنا وقت پورا کرتے اور نکل جاتے ہیں کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا حکومت اپنی جگہ موجود ہے لیکن اشیاء خودونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ کوئی ایک چیز ایسی نہیں ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہ کیا گیا ہو بلکہ ہر چیز کی قیمت میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم اپنے تئیں کوششیں کر کے دیکھ چکے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے لیکن قیمتوں میں کمی نہیں ہو سکی۔ اسی عرصے میں آٹا اور چینی کے بحرانوں کا سامنے آنا بھی متعلقہ اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس اہم اور انسانی منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹ رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو مس گائیڈ کون کر رہا ہے۔ وزیر اعظم مس گائیڈ کیوں ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قابل عمل تجاویز کو نظر انداز کیوں کر دیا، انہوں نے اس معاملے میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی، کون انہیں غلط اطلاعات اور رپورٹس فراہم کرتا رہا ہے، کون ہیں وہ طاقتور جن کا تعلق فوڈ انڈسٹری سے ہے اور وہ حکومت میں ہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ حکومت کے اپنے لوگ ہی ذاتی مفادات کے لیے اس اہم ترین مسئلے پر سیاست کر رہے ہیں پھر عوام کے بجائے کسی اور کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کو اس حوالے سے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ خود ملیں، حالات و واقعات کو سمجھیں اور پھر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے دلیرانہ فیصلے کریں۔ مہنگائی کے جن کو قابو کرنا ضروری ہے ورنہ یہ جن بہت کچھ ہڑپ کر جائے گا۔ عوام کو اشیاء خودونوش کی بلاتعطل اور مناسب قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اسی طرح ادویات، سکولوں کی فیسوں میں کمی کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس اہم کیس میں وزیر اعظم کو فرنٹ سے لیڈ کرنا ہو گا۔ سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں سے آزاد ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ عوام کی آسانی کسی بھی دوستی سے زیادہ اہم نہیں ہے، عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ناپسند ہی کیوں نہ ہوں انہیں عوام کے مفاد میں عزت دینا ہی بہتر سیاسی فیصلے ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان اس حوالے سے جلد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024