پاکستان کی معاونت سے یہ کامیابی درحقیقت ’’افغان باقی‘ کہسار باقی‘‘ کے فلسفہ کی جیت ہے
امریکہ‘ طالبان مذاکرات کی کامیابی اور پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ کی تنصیب خطے کے امن و استحکام کی ضمانت
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ تقریباً 9 کلومیٹر پر باڑ کی تنصیب کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ باڑ کی تنصیب سے سرحد پار دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو چیک کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔ اس منصوبے کی تکمیل آئندہ برس تک متوقع ہے جس سے مزید معاونت ممکن ہو جائیگی۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے ایک سرحدی گائوں غلام خان میں صحافیوں اور اینکرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے انتہائی حساس 1200 کلومیٹر کے حصہ پر باڑ کی تنصیب کا کام گزشتہ برس شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے پر تقریباً 70‘ ارب روپے کی لاگت آئیگی جس میں سرحد پار غیرقانونی نقل مکانی پر کڑی نظر رکھنے کیلئے جدید سکیورٹی آلات اور کیمروں کی تنصیب بھی شامل ہے۔ افغانستان میں مفاہمتی عمل کے اثرات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اس عمل میں کردار ادا کر رہا ہے۔ افغانستان میں مخالف قوتوں کی سرپرستی میں کام کرنیوالے تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشت گرد عناصر کے پاس مفاہمتی راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کیخلاف اپریشن کے بعد فاٹا میں اب کوئی نوگوایریا نہیں رہا۔ یہ علاقہ اب صوبہ خیبر پی کے کا حصہ بن چکا ہے۔ انکے بقول پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو بیرون ملک چیخ و پکار کرنے کے بجائے مقامی قیادت کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے اور اپنی شکایات کو حل کرانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن اب ڈیڈایشو ہے۔ رواں سال کے آخر تک پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ لگانے کا کام مکمل ہو جائیگا۔ یہ باڑ دہشت گردی کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کریگی اور سرحد پار دہشت گردی کے الزامات ختم کر دیگی۔ انکے بقول امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو آہنی باڑ کے باعث پاکستان پر دبائو نہیں آئیگا۔
یہ امر واقع ہے کہ افغان سرزمین پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان کا ہی نقصان ہوا ہے جسے اس جنگ میں امریکی نیٹو فورسز کو لاجسٹک معاونت فراہم کرنے کے ردعمل میں بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی بھینٹ بھی چڑھنا اور اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں بشمول سکیورٹی حکام‘ اہلکاروں اور سیاست دانوں کی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھی اور پھر قومی معیشت کو لگنے والے کھربوں روپے کے ٹیکہ کی صورت میں بھی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ امریکہ نے خود بھی پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار پر بداعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں اور دوسری فضائی اور زمینی کارروائیوں کی صورت میں ہماری آزادی اور خودمختاری تک کو نقصان پہنچایا۔ اس سے ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو ہماری خودمختاری کے کمزور ہونے کا تاثر ملا تو اس نے ہماری سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت افغان سرزمین کو استعمال کرکے ہمارے خلاف سازشوں کی انتہاء کردی جس نے کابل کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی معاونت سے افغانستان میں اپنے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاک افغان سرحد کے راستے انہیں پاکستان میں داخل کرنا شروع کردیا۔ اس طرح ہماری ارض وطن بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آگئی جبکہ دہشت گردی کی ان وارداتوں کیلئے بھارت نے ہماری سکیورٹی فورسز کی حساس تنصیبات اور اداروں کو بطور خاص ٹارگٹ کیا۔ اس تناظر میں افغان جنگ ہمارے لئے مستقل بدامنی کا باعث بنی اور مذہبی انتہاء پسندوں کو بھی اس فضا میں ہماری ارض وطن کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملا چنانچہ اس جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کے باوجود ہمیں امریکہ کی جانب سے بھی ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا اور ہمارے ساتھ شروع دن سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی افغان حکومت بھی ہمارے خلاف جاری بھارتی سازشوں میں شریک ہوگئی۔
یہ امر واقع ہے کہ غیور افغان باشندوں نے آج تک اپنی سرزمین پر کسی غیرملکی جارح کے قدم ٹکنے نہیں دیئے اور ہر بیرونی دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر مار بھگایا ہے۔ اس تناظر میں امریکی نائن الیون کے بعد واشنگٹن انتظامیہ نے نیٹو فورسز کے ذریعہ افغان سرزمین پر چڑھائی کی تو غیور افغانوں کے ہاتھوں ان کا انجام بھی دیوار پر لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ بے شک نیٹو فورسز نے طالبان حکومت ختم کرکے افغانستان کا تورابورا بنا دیا اور افغان سرزمین پر کارپٹ بمباری کرکے خواتین اور بچوں تک کے قتل عام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسکے باوجود نیٹو فورسز طالبان تنظیم کے ماتحت افغانوں کی مزاحمت کے آگے کوئی بند نہ باندھ سکیں۔ اپنی سرزمین کے تحفظ کیلئے غیور افغانوں کی تابناک تاریخ کے ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال بھی قائل تھے جنہوں نے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک طویل نظم میں یہ کہہ کر افغانوں کے عزم و استقلال‘ خودداری و عزت‘ جوش و عمل اور شجاعت پر انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا کہ…؎
نادر نے لوٹی دلی کی دولت
ایک ضرب ِ شمشیر! افسانہ کوتاہ
افغان باقی ۔ کہسار باقی
الحکم اللہ‘ الملک اللہ
غیور افغانیوں کے اس عزم و استقلال کی بنیاد پر ہی معمار نوائے وقت مجید نظامی نے سوویت یونین کیخلاف امریکی سرد جنگ میں افغان مجاہدین کی حوصلہ افزائی کیلئے نوائے وقت کا ایک صفحہ مختص کیا اور علامہ اقبال کے شعر ’’افغان باقی‘ کہسار باقی‘ الحکم اللہ‘ الملک اللہ‘‘ کو اس صفحے کا ٹائٹل بنایا جو آج بھی نوائے وقت کے اس صفحہ پر مزین ہے اور اس کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔
آج امریکہ نیٹو فورسز کے ذریعے افغان سرزمین پر مسلسل 14 سال تک برقرار رکھی گئی جنگ میں ناکام و نامراد اور افغانیوں کی مزاحمت سے عاجز آکر دیگر نیٹو ممالک کے بعد اپنی باقیماندہ افواج بھی افغانستان سے نکالنے کیلئے طالبان نمائندوں کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا ہے تو یہ غیور افغانیوں کے بارے میں علامہ اقبال اور جناب مجید نظامی کے فہم و ادراک ہی کی تائید ہے۔ بے شک کابل کے کٹھ پتلی سابق صدر حامدکرزئی اور موجودہ صدر اشرف غنی نے ہمارے ساتھ بھی بلاوجہ کی دشمنی مول لئے رکھی ورنہ ان کیلئے پاکستان کی معاونت سے افغانستان کو پھر سے امن و امان کا گہوارہ بنانا چنداں مشکل نہیں تھا۔ اب جبکہ خود امریکہ کو اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ پاکستان کی معاونت کے بغیر مزاحمت کار طالبان کے نمائندوں کو امن مذاکرات پر آمادہ کرنا ناممکن ہے تو اب کابل انتظامیہ کو بھی امن عمل میں ہمارے کردار کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے ورنہ تو کابل انتظامیہ اب تک ہمارے دشمن بھارت کے ہاتھوں میں ہی کھیلتی رہی ہے۔ اگر افغان حکومت فی الواقع اس خطے میں دہشت گردی کے ناسور کے قلع قمع میں مخلص ہوتی تو پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کی پاکستان کی تجویز کی کبھی مخالفت نہ کرتی جبکہ افغان حکومت اس تجویز کی بنیاد پر ہی ہمارے ساتھ کھلی دشمنی مول لیتی رہی ہے اور افغان سرحد پر گیٹ لگانے کے ایشو پر افغان فورسز کی جانب سے سخت مزاحمت بھی کی جاچکی ہے۔
پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب سے چونکہ ہماری سلامتی کو نقصان پہنچانے والے بھارتی منصوبوں کی تکمیل ناممکن ہوگی اس لئے بھارتی ایماء پر ہی کابل انتظامیہ پاکستان کی اس تجویز کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اب امریکہ کے طالبان نمائندگان کے ساتھ امن مذاکرات کامیاب ہونے سے پاکستان کیلئے پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ کی تنصیب کا کام مکمل کرنے میں آسانی ہو جائیگی اس لئے اب بالخصوص افغانستان سے ہماری سرزمین میں بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کا داخلہ بھی ناممکن ہو گا جس سے امن کی مستقل بحالی میں مدد ملے گی۔ امریکہ نے بالآخر مجبور ہو کر اور ہماری اہمیت کا ادراک کرکے ہماری وساطت سے جنگجو طالبان کے ساتھ انکی ہی شرائط پر افغانستان سے انخلاء قبول کیا ہے جس سے یقیناً پاکستان امریکہ تعلقات میں پیدا ہونیوالی سردمہری اور کشیدگی کی فضا بھی چھٹ جائیگی۔ یہ بلاشبہ پی ٹی آئی حکومت کی بہتر حکمت عملی سے ہی ممکن ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ کابل انتظامیہ کا لہجہ بھی نرم ہوگیا اور ڈومور کے تقاضے کرنیوالے امریکہ کو بھی ہمارے ایک باوقار خودمختار ملک ہونے کا احساس ہوگیا۔ اس تناظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ ہمیں خطے میں امن کی ضرورت ہے‘ امداد کی نہیں‘ ہم بھکاری نہیں‘ باوقار قوم ہیں۔ امریکہ طالبان معاہدہ بلاشبہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے جو پاکستان کی معاونت کے بغیر قطعاً ممکن نہیں تھا اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیئو کا دوحہ مذاکرات کو حوصلہ افزاء قرار دینا بھی امن مذاکرات میں درحقیقت ہمارے کردار کا اعتراف ہے۔ اس معاہدے پر عملدرآمد سے پاکستان اور افغانستان ہی نہیں‘ پورے خطے میں امن و استحکام کی ضمانت ملے گی اور افغان سرزمین پر چڑھائی کرنیوالے نیٹو ممالک بشمول امریکہ پر اب یہ حقیقت کھل کر واضح ہو جائیگی کہ پاکستان کی معاونت سے امن مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھتی تو افغان سرزمین عملاً امریکی فوجیوں کے قبرستان میں تبدیل ہو جاتی۔
طالبان کے نام سے معنون افغان قوم سکندر اعظم سے نادر شاہ تک اور سوویت یونین سے امریکہ تک کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے ناقابل تسخیر رہی ہے تو دہشت گردی کی جنگ کے اصل محرکات و مقاصد کی بھی اب دنیا کو سمجھ آجائیگی۔ افغان سرزمین پر بہرصورت ’’افغان باقی‘ کہسار باقی‘‘ کا فلسفہ ہی غالب رہے گا اور آئندہ کسی بھی بیرونی قوت کو سوچ سمجھ کر ہی افغان سرزمین کو اپنا ہدف بنانا ہوگا۔