زیادتی کا شکار ہو نیوالوں کو گھر والوں اور معاشرے کا رویہ روگی بنا دیتا ہے
عنبرین فاطمہ
تصویر :جنید ہاشمی
ہماری سوسائٹی ایسے معاشرتی ،اِخلاقی ،سماجی مسائل کے گرداب میں ہچکولے کھا رہی ہے جن سے باہر نکلنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش یا حکمت عملی نظر نہیں آتی ۔کہنے کو تو بچوں کو ہم نے ہر طرح کی آزادی دے رکھی ہے لیکن زینب جیسے روح فرسا اور لرزہ خیز واقعات ہماری سوسائٹی کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔وہی بچے بچیاں جن کی معصومیت حیوانیت نما انسانیت کی نذر ہوتی ہے ،جب وہ شعوری زندگی میں قدم رکھتے ہیںان کا رویہ ایک نارمل انسان سے یکسر مختلف ہوتا ہے وہ ذہنی دباﺅ،جسمانی گھٹن ،نفسیاتی عوارض ،اَن دیکھے اور شعور میں چھپے ہوئے خوف میں مبتلا رہتے ہیں وہ عمومی زندگی میں نارمل نہیں رہتے دوسرے لوگ ان کی اس کیفیت ،درد اور ان کی شخصیت میں پیدا ہونے والے اس خلاءکو سمجھ ہی نہیں پاتے ۔ایسے متاثرہ بچے ،بچیوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو نارمل زندگی کی طرف لوٹ کر آتے ہیں اور اپنے اندر قوت اعتماد اورحوصلہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی تشدد کے واقعات کو دنیا کے سامنے بیان کر کے دیگر متاثرہ لوگوں کے لئے ہمت اور حوصلے کی مثال بن سکیں ۔ایسی ہی ایک خاتون ہماری فیشن آئی کون ”فریحہ الطاف“ ہیں جنہوں نے بچپن میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو بیان کرکے سوسائٹی اور خاص طور پر والدین کو پیغام دیا کہ بچوں کو گھٹن کا شکار مت بنائیں اگر کسی بچے یا بچی کیساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو اسے قصوروار سمجھنے کی بجائے گھر والے اور معاشرہ احساس تحفظ سے ہمکنار کرے ۔فریحہ الطاف نے زینب کے واقعہ کے بعد ٹویٹر پر اپنے ساتھ بچپن میں پیش آنے والے ایسے ہی واقعہ کو دنیا کے سامنے رکھ کر ہمت اور جرات کا مظاہر ہ کیا ۔فریحہ الطاف کا اسقدر جرات اور ہمت کا مظاہرہ تنگ نظر سوسائٹی کے منہ پرطمانچہ ہے ۔ہم نے فریحہ الطاف سے انٹرویو کیا انہوں نے ہمیں اپنی زندگی کی سٹوری کچھ یوں سنائی ان کہنا ہے کہ میں ایک تعلیم یافتہ فیملی سے تعلق رکھتی ہوں میری فیملی کے لوگ خصوصی طور پر میرے والدین بالکل تنگ نظر نہیں تھے انہوں نے بچپن میں ہمیں ہر طرح کی آسائش دی اور ہماری ہر ضد مانی لیکن جب میرے ساتھ ساڑھے چھ برس کی عمر میں یہ واقعہ ہوا تو میرے والدین کو میں نے اس معاملے میں بہت ہی روایتی والدین پایا ۔1970کی بات ہے میں ساڑھے چھ برس کی تھی میرے والدین ملک سے باہر گئے اور مجھے میرے بہن بھائیوں کیساتھ گھر پر چھوڑ گئے گھر میں کام کرنے والے لوگ موجود تھے ہمیں احساس تحفظ تو تھا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ والدین کے جانے کے بعد انہی سے مجھے سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا ۔ہوا یوں کہ والدین کے جانے کے بعد ہمارے خانساماہ جس کا تعلق بنگال سے تھا اس نے مجھ پر مجرمانہ حملہ کیا اب مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ظلم ہو گیا ہے میں ڈر اور سہم سی گئی بہن بھائیوں سے بات کرنا بھی کم کر دی۔یہاں تک کہ میرے والدین واپس آئے تو میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی ، چونکہ والد سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا اس لئے ان سے تو بات کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا تھا ،پھر اچانک میرے اندر ایسا اعتماد اور ہمت آئی کہ میں نے اپنی والدہ کو بتادیا اب میری والدہ بہت پریشان ہوئیں انہوں نے فورا پولیس کو کال کرکے خانساماہ کو گرفتار کروا دیا ۔ساتھ ہی ساتھ مجھے کہا کہ اب تم نے اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرنا نہ ہی دوستوں سے اور نہ ہی کسی رشتہ دار سے ،ورنہ لوگ پتہ نہیں کیا کیا باتیں بنائیں گے ۔میری والدہ نے مجھے تو تاکید کر دی لیکن خود اس چیز کا اتنا صدمہ لیا کہ شدید بیمار ہوگئیں بعد میں دوائیاں کھا کر خود کو نارمل کرتی رہیں لیکن اس دوران میں ٹوٹ گئی میرا اعتماد کھو گیا میں ڈر ی اور سہمی سی رہنے لگی ،عام بچوں کی طرح نہ کھیلتی تھی نہ ہی کسی میں گھل مل کر بیٹھتی تھی میری شخصیت کہیں کمزور سی ہونے لگی ۔مجھے یاد ہے کہ 28برس تک میں اس قصہ پر کچھ نہ بولی خیر کرتے کرتے میری شادی کا وقت آگیا میر ی شادی ہوگئی لیکن بچپن میں میرے ساتھ جو ہو چکا تھا اس واقعہ نے مجھے اندر سے کمزور اور حساس انسان بنا دیا ہوا تھا ۔شادی تو ہو گئی مجھے اللہ نے دو بچوں کی نعمت سے نوازا لیکن میری شادی پانچ برس سے زیادہ نہ چل سکی میرا شوہر مجھ سے بد تمیزی کرتا تھا ٹارچر کرتا تھا میں سب سہتی تھی مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے میں deserveکرتی ہوں میرے دماغ سے بچپن کے واقعہ کے اثرات نہیں جا رہے تھے اس واقعہ کو لیکر میرے اندر ایک گھٹن تھی جس کا نکلنا بہت ضروری تھی ۔میں سوچا کرتی تھی کہ میں کتنی مضبوط عورت ہوں کامیابی بھی ہوں لیکن ذاتی زندگی اتنے مسائل کا شکار کیوں ہے ۔34سال کی عمر میں جا کر سمجھ آئی کہ میری زندگی میںجو بے چینی تھی وہ کہاں سے آئی تھی ۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی چھوٹی بہن سے ایک بار پوچھا کہ تم کو معلوم ہے کہ میرے ساتھ بچپن میں کیا ہوا تھا تو میں بہت حیران ہوئی کہ اس کو سب کچھ پتہ تھا لیکن کبھی مجھ سے بات نہیں کی تھی ۔میری اذدواجی زندگی جب خراب ہو رہی تھی یعنی نوبت طلاق تک پہنچ گئی تھی ،بس یہی ذہن میں چلتا رہتا تھا کہ میری سیلف ریسپیکٹ نہیں ہے میں اچھی نہیں ہوں اگرمیرے ساتھ کچھ بھی غلط ہوتا ہے تو وہ ٹھیک ہے میرے ساتھ ایسا ہونا چاہیے ۔میںنے اپنی والدہ سے ایک بار کہا کہ امی میرے ساتھ اگر کچھ غلط ہوا تھا تو یہ میرا قصور نہ تھا کیوں آپ نے میرے اندر کے دکھ اور درد کو باہر نہ نکلنے دیا کیوں آپ نے مجھے اس پر آواز نہیں اٹھانے دی کیوں ساسوئٹی کا پریشر لیا اس سارے چکر میں میری شخصیت آج دبی اور گھٹی ہوئی ہے میں ایک اچھی زندگی نہیں گزار پا رہی ہوں ۔خیر میں نے کاﺅنسلنگ کروائی تب جا کر چیزیں کہیں سمجھ آئیں اور میںنارمل ہونا شروع ہوئی ۔مجھے معلوم ہے کہ آج بھی اس چیز پر لوگ بات کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن کاﺅنسلنگ کروانے کے بعد میں نے اپنی قریبی دوستوں سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے حوالے سے بات کرنا شروع کی مجھے پتہ چلا کہ پاکستان میں تو اس طرح کے بہت سارے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن لوگ عزت کی وجہ سے منہ پر تالے لگانے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ اپنے بچوں سے بھی کھل کر بات نہیں کر پاتے ان کو بتانے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔میرے گھر جب بچے پیدا ہوئے تو میں ان کے تحفظ کو لیکر بہت ہی حساس ہو گئی لیکن میں نے ان کو بتا دیا تھا کہ کس طرح سے اپنی حفاظت کرنی ہے کوئی ایسی ویسی حرکت کرے تو فورا والدین کو بتانا ہے ۔میں جب بچوں کی پرورش کر رہی تھی تو پاکستان میں ڈر کے مارے رہتی نہیں تھی باہر چلی جاتی تھی ۔میں سمجھتی ہوں کہ جنسی تشدد کے واقعات میں سب سے زیادہ جو نقصان پہنچاتے ہیں وہ قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جن پر آپ بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں ۔سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ہم متاثرہ بچوں کی زبان بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گھٹتے رہتے ہیں حالانکہ ان بچے اور بچیوں کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا انہیں اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کو ملتا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگیوں میں ٹھہراﺅ نہیں آتا ہے اور وہ ایک بے چینی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔زندگی کے کسی موڑ پر وہ اچھا پرفارم نہیں کر پاتے نہ کسی کے پیار پر یقین کرتے ہیں اور نہ ہی کسی پر اعتماد کرپاتے ہیں ۔ان میں ایک خاص قسم کا غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔سوسائٹی کو اس حوالے سے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا خصوصی طور پر والدین کو ۔اگر ہم آج کسی ظلم پر آواز نہیں اٹھائیں گے وہ ظلم بڑھتا جائیگا اور متاثرہ بچے ذہنی مریض بنتے جائیں گے ۔جب زینب کا واقعہ سامنے آیا تو مجھے کافی دن تک نیند ہی نہیں آئی میرے زخم بھی تازہ ہو گئے اور میں بہت دکھی ہو گئی میں زینب کے والدین کا دکھ اور درد سمجھ سکتی ہوں ۔مجھے لگا کہ اب یہ وقت ہے کہ میں اپنے ساتھ پیش آنے والے بچپن میں جنسی تشدد کے واقعہ کو دنیا کے سامنے بیان کروں ۔مجھے یاد ہے کہ گزشتہ برس جب ہالی وڈ میں جاب ہراسمنٹ کا کیس آیا تو مجھے انٹرویو کے لئے رابطہ کیا گیا میں نے ان کو انٹرویو دیا اور ان کو بتایا کہ ملازمت کی جگہوں پر ہراسمنٹ پوری دنیا میںپائی جاتی ہے لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ بچوں کیساتھ جنسی تشدد ہے جس کا سد باب بہت ہی ضروری ہے میں نے ان کو اپنا واقعہ کو شئیر کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ میرے اس انٹرویو کو چھاپا نہ گیا ۔افسوس ہوتا ہے کہ ہم آج بھی بہت سارے ایشوز پر آنکھیں موندئے ہوئے ہیں اور ان پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں حتی کہ بچوں کو بھی نہیں بتاتے کہ کس طرح انہیں اپنی حفاظت کرنی ہے ۔