پیر ‘ 11؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ‘ 29 ؍ جنوری 2018ء
بختاور نے دبئی میں 2 بلند عمارتوں سے بندھے تار کے سہارے ہوا میں سفر کرکے 28ویں سالگرہ کا جشن منایا۔
ایڈونچر کا شوق بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے۔ اب یہ قسمت کی بات ہے کسی کسی کو اپنا شوق پورا کرنے کا موقعہ بھی مل جاتا ہے۔ بختاور زرداری بھی خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے اپنی 28ویں سالگرہ دبئی میں منائی جہاں فلک بوس عمارتیں بھی ہیں اور زندگی تمام رعنائیوں کے ساتھ بکھری ہوئی ہے۔ دنیا بھر سے لوگ دبئی سیروتفریح اور ایڈونچرز کیلئے آتے ہیں خاص طور پر مسلم یا ایشیائی ممالک کے لوگوں کیلئے سنگاپور اور بنکاک کی طرح دبئی بھی سیروتفریح کے شائقین کے دل میں جگہ بنا چکا ہے۔ اب بختاور نے جس طرح دو بلند عمارتوں کے درمیان بندھے تار پر معلق ہو کر سفر کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی بہادر ہیں اور ایڈونچر پسند بھی۔ ورنہ ہمارے ہاں تو لڑکیاں اتنی بلندی سے نیچے دیکھتے ہوئے بھی اوئی اللہ کا نعرہ اتنی زور سے بلند کرتی ہیں کہ پاس کھڑے لوگ بھی گھبرا کر چونک پڑتے ہیں۔ اب جس طرح بختاور نے بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سالگرہ کا جشن منایا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ پاکستان کی پرخطر سیاست میں بھی نڈر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انکے والد گرامی آصف زرداری نے آئندہ الیکشن میں انکے الیکشن لڑنے کا عندیا دیا ہے۔ امید ہے کہ اس طرح پیپلزپارٹی کو بے نظیر بھٹو کی طرح ایک اور باہمت لیڈر مل جائے گی جو اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتی۔ مگر کیا ایسی بہادر نڈر لیڈر خود موجودہ پیپلزپارٹی والوں کو قبول ہو گی۔
٭…٭…٭…٭
جیل بھرو تحریک کا آغاز، آصف جلالی سمیت کسی کو پکڑا نہیں گیا۔
تحریک لبیک یارسول اللہ کے قائد آصف جلالی اپنی جیل بھرو تحریک کا آغاز کرنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مال روڈ پہنچے مگر افسوس انکی تحریک کوئی رنگ نہ جما سکی۔ جلالی صاحب اپنے ساتھیوں سمیت گرفتاری دینے کیلئے چار گھنٹے مال روڈ پر پولیس کا انتظار کرتے رہے۔ پنجاب پولیس نے ایسی بے رخی برتی کہ انکی طرف کوئی توجہ بھی نہ دی۔ گرفتاری تو دور کی بات ہے انکی چار گھنٹہ کے انتظار اور پریس کانفرنس میں بھی کوئی مداخلت نہیں کی ورنہ اتنے افراد کیلئے تو پولیس کی ایک وین ہی کافی ہوتی ہے انہیں منتشر کرنے یا پکڑنے کیلئے۔ اب جلالی صاحب نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج پھر کوششیں کریں گے کہ انہیں گرفتار کیا جائے تاکہ جیل بھرو تحریک کا باقاعدہ آغاز ہو۔ مگر لگتا ہے ایسا پھر نہیں ہو گا اور جلالی صاحب کو بے نیل و مرام بنا گرفتاری کے واپس لوٹنا پڑیگا۔ اب حکومت پنجاب ہی کوئی قدم اٹھائے تاکہ جلالی صاحب کا بھرم رہ جائے۔ پنجاب پولیس جانتی ہے کہ پچھلے ادوار میں ایسے شریف النفس قسم کے مظاہرین کو جیلوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لاریوں میں بھر کر شہر سے 50 یا 60 میل دور چھوڑ دیا جاتا تھا اور ٹرانسپورٹ والوں کو حکم دیا جاتا تھا وہ انہیں نہ بٹھائیں یوں یہ گرفتاری کے شوقین جب کئی دن کا سفر پیدل طے کرکے گھر واپس آتے تو کئی کئی دن گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ سو اب بھی اگر یہی پریکٹس دہرائی جائے تو جیل بھرو تحریک کا بھی بھرم رہ جائیگا ورنہ انہیں آنیوالے الیکشن مہم چلانے کیلئے کافی دشواری پیش آ سکتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
بلوچ طلبہ کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔سرفراز بگٹی
وزیر داخلہ بلوچستان لاہور آئیں جم جم آئیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا دورہ کریں۔ بلوچ اور پشتون طلبا سے ملاقات کریں انکے مسائل دریافت کریں اور یہ مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ وی سی سے ملیں پولیس حکام سے ملیں، مگر خدارا طلبہ کے نام پر صوبائیت پھیلانے کی سیاست تو نہ کریں۔ اگر یہی واقعہ کوئٹہ یا پشاور یونیورسٹی میں ہوتا تو کیا وہاں کی انتظامیہ گڑ بڑ کرنے والے طلبا کو ہار پہناتی۔ طالب علم صرف طالب علم ہوتا ہے وہ پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی نہیں ہوتا، انہیں اگر غلطی پر بے لگام چھوڑا جانے لگا تو پورا تعلیمی نظام خراب ہو سکتا ہے۔ جو مہمان طلبہ پڑھنے آئیں وہ تعلیم حاصل کریں جس کیلئے انہیں پنجاب حکومت وظائف اور دیگر سہولتیں بھی دیتی ہے۔
سرفراز بگٹی جن قوتوں کی پشت پناہی پر یہ ناٹک کر رہے ہیں سارا بلوچستان جانتا ہے۔ بلوچستان میں انکی وزارت کے دور میں جب پنجابی بے دردی سے قتل ہوتے رہے تب کسی پنجابی وزیر نے پنجاب سے جا کر بلوچستان میں بیٹھ کر ایسی کوئی گلفشانی نہیں کی سیاست نہیں چمکائی۔ تو یہ بھی احتیاط کریں۔ یہ طلبہ کے ہنگامے باہمی لڑائی جھگڑے کے عام ایشوز ہیں۔ ان پر لاہور آ کر بیان داغنے سے قبل سرفرازبگٹی صاحب اپنے صوبے پر توجہ دیں۔ سیاست اور سیاسی معاملات پہ دھیان کریں۔ طالب علم پشاور کا ہو یا پنجاب یونیورسٹی کا کراچی کا ہو یا بلوچستان یونیورسٹی کا اگر وہ ڈسپلن خراب کرتا ہے تو اسکے خلاف ایکشن لینا یونیورسٹی کا حق ہے۔ اب اس میں اسلامی جمعیت طلبا کے کارکن ہوں یا بلوچ پختون اتحاد کے طلبہ کسی سے رعایت نہیں ہونی چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان تعاون کرے تو دہشت گردی پر قابو پا سکتے ہیں:۔افغان سفیر
تو پھر یہ امریکہ اور نیٹو اتحادی کیا افغانستان میں اچار ڈالنے بیٹھے ہیں۔ یہ کیا کر رہے ہیں ۔ ہمارے محترم افغان سفیر ڈاکٹر عمرزاخیوال خیر سے پڑھے لکھے انسان ہیں۔ آج وہ ہم سے کیسا اور کتنا تعاون چاہتے ہیں۔ کون سا تعاون ہے جو ہم نے افغان حکومتوں کے ساتھ نہیں کیا۔ یہ تو امریکہ کی طرف سے ’’ڈومور‘‘ والی بات لگتی ہے کہ ہزاروں آرمی اور سول والے پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تعاون کی پالیسی پر قربان ہو گئے مگر ابھی ہل من مزید کی صدائیں آ رہی ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان کو کیا ملا یا اس پر غور کیا پاکستان میں پھیلی دہشت گردی اور بدامنی میں سو فیصد ہاتھ بھارتی را اور افعان خفیہ والوں کا ہے۔ یہ آسمان سے نہیں آئے افغانستان کے راستے یا بھارت کے راستے سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں مگر پھر بھی افغانستان والے ہمارے ازلی دشمن کی یاری میں قربان ہی نہیں صدقے واری جاتے ہیں۔ اب پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کی پالیسی افغانستان اور امریکہ کو ترک کرنا ہو گی۔ جب سپر طاقت امریکہ اور اسکے مغربی اتحادی جدید ٹیکنالوجی اور ہزاروں اپنے فوجیوں کے ساتھ افغانستان کی فوج کے ہمراہ ملک کے چپے چپے پر موجود ہیں تو وہ خود اس دہشت گردی پر قابو کیوں نہیں پاتے۔ پاکستان نے بھی اپنے حصہ کا کام کر لیا ہے ملک بھر میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ جب پاکستان افغان سرحد پر باڑ لگاتا ہے تو اس پر سب سے زیادہ شور افغانستان حکومت ہی بھارت کے کہنے پر مچاتی ہے کہ اس طرح را کے دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ بند ہو جائیگا۔ خدارا اب تو افغان حکومت پہلے اپنے لاکھوں مہاجرین کو واپس بلائے قبول کرے۔ باقی تعاون بعد میں ہوتا رہے گا۔ پہلے یہ بوجھ تو ہمارے سر سے اتارنے میں ہماری مدد کریں اور ہمیں سرحد پر باڑ لگانے دیں۔