قیامت کی گھڑی اور قریب آ گئی، ظاہر ہے انکشاف ہے خبر نہیں اور ہم یا آپکے پاس علم نہیں کہ دعویٰ کر سکیں۔ سائنسدانوں نے اطلاع دی ہے۔ قارئین قیامت اور کیا ہوگی جو آجکل ملاحظہ کر رہے ہیں۔ سن رہے ہیں، سینکڑوں والدین رل گئے۔ دکھ سے ادھ موا ہوگئے، میڈیا کے چند لوگوں نے سچائی ، مبالغہ کا وہ طوفان اٹھایا کہ جھوٹ پکڑنا مشکل مزید24گھنٹے سنسنی ہیجان نے ضائع کر دیئے۔دہشتگردی اور جنگوں کے متاثرین صرف مسلمان ’’ صدر انڈونیشیا‘‘ ظاہر ہے اعمال اور نیت کا اکٹھ اپنوں سے غداری، تعصب ، کینہ ہمارے مصائب کے ذمہ دار ہیں۔ شک نہیں عوامی فلاح کیلئے جمہوریت بہترین نظام ہے کاش اس نظام سے مستفید ہونیوالے ’’ عوامی فلاح‘‘ پر بھی توجہ مرکوز کر سکیں۔مذمت صرف مذمت ، واحد ہتھیار جوابھی تک صحیح و سالم نہ صرف موجود ہے سلامت ہے بلکہ ’’ محفوظ ذخائر‘‘ سے زیادہ فعال بھی۔ 24گھنٹے تیار پوزیشن سو تازہ ڈرون سرحدی فائرنگ پر اس مد میں سبھی ایک صفحہ پر دیکھائی دیئے۔ مزید نہ برداشت کرنے کا قومی ترانہ بھی بصد شوق دہرایا گیا۔ اسکے علاوہ ہم کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔ جو مقروض قوم اپنی اشرافیہ کے پنجے سے نہ نکل پائی۔ وہ ایک ’’ سپر پاور‘‘ سے ٹکر لے سکتی ہے؟ ہاں اگر ارادہ باندھ لیں، متحد ہو جائیں کہ قرض نہیں چاہئے مگر ممکن نہیں کیونکہ موجودہ حکومت جاری سال کے گزشتہ6ماہ میں4.10ارب ڈالر قرض وصول کر چکی ہے۔ سب امکانات میں سے بہترین راستہ قائل کیا جائے کہ افغان سر زمین دہشت گردوں کی نرسری ہے۔ اسکے اندر ٹھکانے ٹارگٹ کئے جائیں۔ سفارتی علاقے میں تازہ ترین گھنائونی واردات ہم صرف مذمت کر سکتے ہیں حل افغان قیادت کے پاس ہے ہمارا نہیں خیال کہ ’’ لیڈر شپ‘‘ درست راہ پر نہیں آئیگی۔ پاک افغان صلح اکٹھ ہی فتح کی نوید بن سکتا ہے۔ پاکستان، بھارت نے بہت لڑ لیا، آئو مل کر غربت، بیماری کیخلاف لڑیں ’’مودی جی ‘‘ نیا روپ یا ڈرامے بازی کی رواں سیریل کا ڈائیلاگ کچھ بھی کہہ لیں پر ہے گھسا پٹا بلکہ دوسرے رخ کا نئے الفاظ میں تازہ مظاہرہ اسی سانس میں نکل گیا کہ دہشت گردی کے خلاف دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کا مقصد پاکستان کو تنہا کرنا نہیں، ماضی کیا چند دن پہلے کے اخباری اوراق کو کھنگال لیں خود ہی شرمندہ ہو جائیں۔ ’’ وزیر اعظم‘‘ ریاست کا سب سے با اختیار اہلکار، کابینہ کے باقی اراکین اس کے نمائندے ایک طرف دعوت اسی دن وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی، پاکستان کے اندر گھس کر کارروائی کا شوق اب پورا کر ہی ڈالیں۔ ہمارے رد عمل سے تو سب آگاہ ہیں۔ واحد دستیاب ہتھیار کا فوری استعمال، انہی کی مقبوضہ اسمبلی میں ’’ وزیر پارلیمانی امور ‘‘ واشگاف انداز میں بول پڑے کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ انڈیا کرتا ہے۔ پاکستان صرف جواب دیتا ہے۔ جواب دینے والے بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ خطہ میں بارود کی بو پھیلانا نہیں چاہتے۔ ممبئی حملوں پر جرمن صحافی کا حالیہ انکشاف بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمسایہ +اتحادی ممالک کا گٹھ جوڑ کوئی نئی اطلاع نہیں مگر کوئی تسلیم بھی تو کرے۔ ہر خبر واردات، سانحہ ، سازش کچھ بھی آنکھوں سے اوجھل ہے نہ پوشیدہ سر پرست سبھی کارستانی منظم اتحادی پلاننگ ہے ہاں ٹارگٹ صرف مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی خطہ میں مقیم ہو۔ بالاآخر ناقص پانی کی 24کمپنیوں کی بندش کے بعد ڈبہ بند دودھ کی 4 کمپنیاں بھی پابند دودھ توبعد کا مرحلہ ہے۔ ظالم بے حس لوگ اپنے ہی ہم وطنوں کو انہیں کا کھلا پانی بوتلوں میں بند کر کے بیچ کر اربوں روپے کمانے والے اتنا بھی خوف ترس نہ کھا پائے کہ پانی تو صاف پلا دیتے، شکر کسی طرف تو صفائی کا آغاز ہوا۔
دل کو چھوتے حروف، چاہے صدیاں گزر جائیں مٹتے نہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے جب سنا کہ جہاں ادارے کچھ نہیں کرینگے عدلیہ حرکت میں آئیگی۔ پاکستان کی بد نامی کرنے والا بچ کر نہیں جائیگا۔ بچنا بھی نہیں چاہئے۔ ایک مجرم پکڑنے میں سب ناکام ہو گئے، معلوم ہوتا ہے گرفت کردہ بھی اگلے وقتوں میں شاید بے گناہ پکڑنے کا اعتراف سامنے آ جائے۔ سچ کو طاقتور آوازوں نے دبا رکھا ہے۔ انصاف کیلئے صرف مظاہرے، توڑ پھوڑ ہی حل رہ جائے تو پھر کسی کا اختیار سے تجاوز کرنے کا شکوہ بنتا نہیں۔ عوام حتیٰ کہ مجاز اتھارٹی بھی شکوہ کناں ہیں، ادارے کیا شخصیات تک فیل، ناکام ہو گئیں۔ اب ظاہر ہے کسی کو تو آگے بڑھنا ہے۔ معاملات حل کرنا پڑینگے۔ سوچ مثبت ہے۔ ارادہ نیک ہے بس عمل کر ڈالیں پر مشروط کیا جائے کہ اداروں میں تال میل میں رخنہ نہ پڑے۔ آئینی طور پر متعین فرائض کی بجا آواری کا اہتمام کرنے پر زیادہ کوشش کرنے اور توانائی صرف کرنے کی ضرورت ہے۔’’ ججز صاحبان اور افسروں کی دوہری شہریت کے از خود نوٹس پر بھی عوام نے ایک گونہ اطمینان محسوس کیا۔ نجی بینکوں کے ملازمین کی پنشن کا معاملہ ہو یا پھر کرپشن سرحدوں سے باہر جارحیت پسند، ملکی حدود میں موجود فرار یا نفع خور مافیاز، کسی کو بھی بچ کر جانا نہیں چاہئے۔ عوام خواہش مند ہے کہ مفاد عامہ کے تمام حل طلب مسائل کے علاوہ ان عوامی دکھوں آنسوئوں کی طرف بھی آیا جائے جو معاشرے اور آنکھوں کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔ ظلم و تشدد کے بڑھتے ہوئے طوفان کمزور طبقات سے نا انصافی اور پسماندہ نظر انداز شہروں قصبات سے ارادی یا غیر ارادی غفلت کوتاہی کا تدارک ہونا چاہئے۔ عوام نہیں خود’’ حکمران ‘‘ متذکرہ مسائل پر خونی انقلاب کا خطرہ ظاہر کرتے رہتے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ ایک دن شیر آ ہی جاتا ہے۔ قابل احترام اعلیٰ عدلیہ کا کم سے کم مدت میں مقدمات کو نمٹانے کا فیصلہ اور اس جانب پیش رفت قابل ستائش ہے۔ نظام ایسا ترتیب دیں کہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بوجھ کم کیاجائے۔ قابل صد احترام چیف جسٹس صاحب معصوم بچیوں اور قتل کے تمام مقدمات کو ایک مقدمے میں تبدیل کر کے غمزدہ والدین کی تالیف قلب کا باعث بنیں۔ مجرم دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپ جائیں پکڑے جاتے ہیں۔ پر گناہ اور جرم کو ختم کرنے سے معاشرہ میں سکون آئیگا۔ گندی فلموں سے کتابوں تک آگ لگا دیں۔ کوئی بھی بچنے نہ پائے، تعلیمی اداروں کو ڈرگ فری بنا دیں۔ یہ کام صرف ’’ وزیر اعلیٰ پنجاب‘‘ کر سکتے ہیں اگر ارادہ کر لیں۔