وزیراعظم،وزارائے اعلیٰ کے کمیشن بنانے پر پابندی
لاہور (نامہ نگار) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور میں زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے گرفتار ملزم عمران کے 37 بینک اکائونٹس کا دعویٰ کرنے والے اینکر پرسن شاہد مسعود کے ثبوت پیش کرنے میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے الزامات کی تحقیقات کیلئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی بنا دی اور اینکر پرسن کو نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے زینب کے والد اور وکیل کو پریس کانفرنس یا میڈیا سے گفتگو کرنے سے روکتے ہوئے انہیں جے آئی ٹی سے تعاون کرنے کی ہدایت کی جبکہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ زینب قتل کیس کے حوالے سے قائم جے آئی ٹی اپنا کام کرتی رہے گی جبکہ عدالت نے آئندہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی جانب سے کمیشن یا جوڈیشل کمیشن بنانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ کوئی کمیشن نہیں بنائے گا، تفتیش اصل طریقہ کار ہے، کمیشن بنا کر معاملہ لٹکا دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلی آئندہ کسی کمشن کے لئے درخواست نہ کریں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور ملک پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید، آئی جی پنجاب پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد، ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر اشرف طاہر، ڈاکٹر شاہد مسعود، سینئر صحافی، اینکر پرسنز اور زینب کے والد امین انصاری پیش ہوئے۔ کمرہ عدالت میں اینکر پرسن کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے باہر گفتگو بھی چلائی گئی۔ عدالت نے دوران سماعت اینکر شاہد مسعود سے سوال کیا کہ آپ اپنا ثبوت پیش کریں۔ اس پر شاہد مسعود نے ثبوت پیش کرنے کی بجائے کیس سے جڑی شہادتوں پر روشنی ڈالنا شروع کر دی جس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور خود کو صحافی کہتے ہیں تو آپ شہادتوں کو کیوں جھٹلا رہے ہیں، آپ کا کام تفتیش کرنا نہیں، آپ اپنے پوائنٹ پر رہیں۔ آپ ہمیں ثبوت دیں، آپ نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم عمران علی کے غیرملکی اکائونٹس ہیں اور وہ اندرون اور بیرون ملک آپریٹ کر رہا ہے، اس حوالے سے آپ تفصیلات دیں۔ اس موقع پر شاہد سعود کا کہنا تھا کہ میں ڈی ٹریک نہیں ہو رہا، آپ بھی تو ہسپتالوں کے دورے کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار برہم ہو گئے اور کہا کہ میں ثاقب نثار ہوں میرا کام کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے۔ آپ اس بات کو نہ الجھائیں، آپ ہمیں 37 اکائونٹس کے ثبوت دیں۔ اس پر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو میں جانے نہیں دوں گا۔ میں آپ کا نام ای سی ایل میں ڈالوں گا۔ آپ نے اتنے بڑے الزامات لگائے ہیں اور ان کا ثبوت بھی نہیں۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی، آپ اس پر عدم اعتماد نہ کریں، جس کے بعد چیف جسٹس نے اینکر پرسن کے الزامات کی تحقیقات کے لئے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی بنادی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں شاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کے لئے الگ کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے پولیس کو جلد از جلد چالان ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی رجسٹری لاہور میں اتوار کی صبح ہونے والی سماعت میں عدالت کا کہنا تھا کہ پولیس کو چالان پیش کرنے کے لئے 90 دن کا وقت نہیں دے سکتے۔ عدالت نے کہا کہ اگر شاہد مسعود کے الزامات درست ثابت ہوئے تو ان کی ستائش کی جائے گی اور غلط ثابت ہوئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے مقتولہ زینب کے والد کو کسی بھی قسم کی پریس کانفرنس سے روکتے ہوئے کہا کہ انہیں جو بھی شکایت ہے وہ عدالت کو بتائیں۔ سماعت کے دوران اس پروگرام کے میزبان نے عدالت کو بتایا کہ ایک وفاقی وزیر کا بھی ملزم کے ساتھ تعلق ہے۔ جب عدالت نے شاہد مسعود سے اس وفاقی وزیر کا نام پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ کھلی عدالت میں ان کا نام نہیں بتاسکتے اور شاہد مسعود نے ایک پرچی پر اس وفاقی وزیر کا نام لکھ کر چیف جسٹس کو پیش کیا تھا۔ عدالت نے مقتولہ کے والد کو ہدایت کی کہ وہ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب کے والد امین انصاری کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ آپ اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ جس پر مقتول بچی کے والد نے جواب دیا کہ ملزم کو رحم نہیں آیا اسے کڑی سزا ملنی چاہئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم سب کو آپ سے ہمدردی ہے زینب ہماری بھی بیٹی تھی۔ انہوں نے زینب کے والد کو کہا کہ وہ جے آئی ٹی میں پیش ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں قتل ہونے والے صحافی سلیم شہزاد کے قتل پر کمشن بنا لیکن آج تک پتہ نہیں لگا کہ انہیں کس نے قتل کیا، کمشن بنا کر معاملہ کھوہ کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی خبر غلط ثابت ہوئی تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پھر کیا ہو گا۔ اونچی آواز میں بات کرنے پر چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو جھاڑ پلا دی اور ریمارکس دیئے کہ نرمی سے بات کر رہا ہوں، مگر آپ ہرگز اونچی آواز میں نہ بولیں، نہیں چاہتا کہ حالات میں تنائو پیدا ہو دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیکر پرسن نے جو دو نام ہاتھ سے لکھ کر دیئے تھے وہ عدالتی نوٹس میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کرتے ہوئے زینب کے گھر والوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے اینکر پرسن کو کہا کہ آپ کے پاس ثبوت نہیں تو معافی مانگ لیں وقت گزر گیا تو سخت کارروائی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ زینب کیس میں غفلت برتنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ کوئی ذمہ دار بچ گیا تو کہیں اپنے ساتھ کوئی غیرقانونی اقدام نہ کر بیٹھوں انہوں نے ڈی فرانزک لیب کو کہا کہ سب سے زیادہ انحصار آپ پر ہے۔ چیف جسٹس نے زینب کے والد کو کہا کہ کوئی شکایت ہے تو مجھے بتائیں اور انہوں نے امین انصاری کو اپنا پرسنل نمبر بھی دیا ٹی وی کے مطابق عدالت نے زینب کیس کی تفتیش 10 روز میں مکمل کرکے چالان پیش کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس/ زینب کیس