حریتِ فکر
حریتِ فکر کو دوسرے لفظوں میں سوچنے کی آزادی کہا جا سکتاہے۔ یعنی یہ کہ ہمارا ذہن آزاد ہونا چاہیے اوریہ سوچنے اور کہنے کی آزادی ہونی چاہیے کہ ہماری زندگی کیسے بہتر بنائی جاسکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس میں یہ بھی شامل ہوگا کہ روزمرہ کے رہن سہن اور اپنے ماحول کو کیسے بہتر بنایاجائے تاکہ ہمارے گردوپیش میں امن اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ انسانی زندگی کے مقصد کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ ہو اور ہم سب کو ترقی کے مناسب مواقع میسر آ سکیں۔
دنیا میں جو بھی ترقی نظر آتی ہے وہ یقینا انسانی سوچ اور تدبر کے نتیجہ میں ہوئی ہے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس دنیا میں انسان ہی ایسا جاندار ہے جو سوچنے ، تجربات کرنے اور اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتاہے جبکہ باقی سب مخلوق فقط اپنی جبلت یا Instinctکے ماتحت زندگی گذارتی ہے ۔ زمانہ قدیم میں انسان نے آگ پر قابو حاصل کیا ، مختلف دھاتیں بنائیں ، پہیہ ایجاد کیا اور مختلف سواریاں بنائیں ۔ اور آج اس متواتر ترقی کی بدولت انسان خلا میں تیر تا ہے اور اس نے ایسا مواصلاتی نظام ایجاد کیا ہے کہ ہم گھر بیٹھے دور دراز ملکوں سے بات کرسکتے ہیں اور وہاں کے ہونے والے واقعات اس وقت ٹیلی ویژن پر دیکھ سکتے ہیں اور کمپیو ٹر نے تو گھر گھر میں ایک نئی دنیا بسادی ہے۔ یہ سب کچھ انسان کی سوچ کے نتیجے میں ہوا اور ایسے ماحول میں ہوا جہاں اسے اس بات کی آزادی تھی کہ وہ پرانے مفروضوں اور اصولوں کو چیلنج کرتے ہوئے مختلف تجربات کرے اوراس کے نتیجے میں نئی ایجاد ات کرے۔
لیکن انسان کی یہ ترقی آسانی سے نہیں ہوئی۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کوئی شخص ایسی بات کہتا جو کہ مروجہ خیالات اور عقائد کے خلاف ہوتی تو اسے باغی اور ملحد کہہ کر سخت سزا دی جاتی ۔ مثلاََ اٹلی میں جب ایک شخص نے کہا کہ زمین گول ہے اور گھومتی ہے تو اس پر یہ کہہ کر مقدمہ چلایا گیا کہ وہ خدا کے فرمان سے بغاوت کرتاہے اور اسے اس ناقابل معافی جرم کی سخت سزادی گئی۔اسی طرح مختلف ممالک میں کئی دوسرے مسائل میں اختلاف پر لوگوں کو مجرم ٹھہرا کر انہیں قتل تک کردیا گیا۔ یعنی کہ اس طرح کے حربوں سے انسانی سوچ کو معطل کرنے کی کوششیںہوتی رہیں تاکہ سیاسی حاکموں اور مذہبی اجارہ داروں کا جابرانہ اختیار قائم رہ سکے اور ان کا کہا حرف آخر سمجھا جائے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی سوچ پر پہرہ بٹھانے کے تمام حربے بالآخر ناکام ہوئے اور آزادی ِ فکر کی شمع بجھائی نہ جا سکی۔ یہ اس لیے کہ اکثر معاشروں میں کچھ سر پھر ے لوگ اپنے ماحول سے مطمئن نہیں ہوتے اور ہمیشہ نئی راہوں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں خواہ انہیں اس تلاش کے عمل میں بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے۔
رفتہ رفتہ صورت حال انسانی تگ ودو کے نتیجے میں بدلی اور یہ احساس بیدار ہونا شروع ہوا کہ سب معاملات کسی قاعدے قانون کے تحت طے پانے چاہئیں جوکہ بنیادی انصاف پر مبنی ہو۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ ہرمعاملہ میں اور ہر جگہ ہمیشہ بہتری کی گنجائش باقی رہتی ہے اوریہ بہتری اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے جب پرانے مفروضوں اور اصولوں کو حرف آخر نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں مستقل پرکھا جائے اور ان میں ضروری تبدیلی کی جائے یعنی انسانی سوچ کے دروازے ہر سطح پر اور ہر معاملہ میں کھلے رکھے جائیں تاکہ معاشرے میں ہر قسم کی ترقی جاری رہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج بھی کچھ ایسے ممالک اور معاشرے ہیں جہاں ابھی تک یہ احساس پوری طرح بیدار نہیں ہوا اور جہاں مختلف سطحوں پر تنگ نظری ، تعصب اور جبر روارکھے جاتے ہیں ۔
بہر حال آزادی ِ فکر کے نتیجے میں رفتہ رفتہ انسانی حقوق کا تصور بھی قائم ہوا جس میں بنیادی بات یہ تھی کہ سب انسان حقیقی طور پر برابر ہیں اور انہیں کچھ بنیادی حقوق حاصل ہیں جن کی پاسداری حکومتوں اور معاشرے کا اولین فرض ہے ۔ ان حقوق میں سوچنے اوراپنے خیالات کے اظہار کی آزادی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے کیونکہ اسی پر تمام انسانی بہبود اور ترقی کا دارومدار ہے۔ کوئی ستربرس پہلے اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا چارٹر پاس کیا جس پر سب ملکوں نے بشمول پاکستان دستخط کیے ۔ گو کچھ ممالک اس کی پوری پاسداری نہیں کرتے ۔ یہ بات طے ہے کہ کیونکہ انسانی سوچ کبھی ختم نہیں ہوتی اس لیے یہ دستاویز بھی حرف آخر نہیں ہوسکتی ، لیکن اس کا متن موجودہ سوچ کے مطابق ایک معقول اور قابل عمل منشور ہے جس کی روشنی میں معاشرے کے بہت سے مسائل احسن طور پر حل کیے جاسکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا ذہن کشادہ رکھیں اور ہر اچھی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ یہی بات ہمارے محبوب قومی شاعر علامہ محمد اقبال ؒ نے بھی ایک شعرمیںکہی ہے:
آئین نو سے ڈرنا‘ طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں