میں آلات ِ جراحی تھامے ‘ اپنا جسم کھولے اپنی ہی سرجری میں مصروف تھی ۔ کہ اچانک ایک تجربہ کار سرجن میرے پاس آیااور ہمکلا م ہوا : کون سا ناسور ہے جو تمھیں خود سے نکالنا ہے ؟ میں نہیں جانتی، مگر جسم میں ٹیسیں اور دماغ میں جوار بھاٹا اٹھتا رہتا ہے ۔
آنکھیں سوتی نہیں ہیں اور ضمیر چوبیس گھنٹے بیدار رہتا ہے ۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے میرے صدیوں پرانے مرض کا پتہ دے رہے ہیں ۔ میرے ہونٹوں پر وحشت کی پپڑیوں کا مستقل ڈیرہ ہے ۔یہ روگ میری سمجھ سے باہر ہے یہ روگ مجھے کھائے جا رہا ہے ،
آج ایک ایک عضو کھول کے دیکھوں گی ،آج اپنے ہی ہاتھوں اپنی مر مت کرئوں گی ۔ یہ سن کر وہ جہاندیدہ ماہر سرجن مسکرایا ۔میری شہ رگ کے قریب ہاتھ رکھا اور کہا سارا جسم پھر سے لپیٹ کر رکھ دو ، اور بس اس ایک رگ کو کاٹ دو ۔۔" ناسور یہاں ہے" ۔
جہاں لوگوں کا خدا رہتا ہے اسی شہ رگ میں تمھار ا سچ رہتا ہے۔ تمھارے دل دماغ میں فتورپھیلاتا ہے۔
اس سچ کی رگ کو کاٹ دو ، تمھارے جسم میںیہی زہر پھیلتا ہے۔ اسکے بعدکا نسخہ لکھے دیتا ہوں ۔جھوٹ کے غبارے میں تا حیات کیلئے آکسیجن بھر لینا اور دل کی ساری رگوں میں چھوڑ دینا۔سچ کے سورج کو زہر اور مصلحتوں کے چاند کواینٹی بائیوٹکس دے دو۔ میں نے دکھ سے اُسے دیکھا … اس نے میری زبان کا معائینہ کیا اور کہا "کیا کہنا ہے" یہ ضروری نہیں" کیا نہیں کہنا یہ ہنر سیکھ لو " دنیا میں جینے کا قرینہ سیکھ لو ۔۔
شفافیت کو بھول جائو اور جھوٹ بولنے والوں سے تھوڑا تھوڑا جھوٹ ۔ صبح ، شام اور دوپہر بولو افاقہ ہو گا۔
تم جلد ہی صحت یاب ہو جائو گی ۔دنیا میں رہنے کے قابل ہو جائو گی۔ میں بھی صدیوں سے پھیلی اس بیماری سے تنگ آچکی تھی ۔ آلات ِ جراحی وہیں پٹکے ، صرف ایک ننھی سی قینچی اٹھائی اور بس شہ رگ کے پاس سے جاتی سچ کی رگ کو کاٹ دیا ۔ دھیرے دھیرے خون ٹپکنے لگا ،اس کا سرخ رنگ جب کالا ہو گیا تو جسم کے اندر سے ایک سورج کے مرنے کی آواز آئی۔
او ر اسی دن اخبار میں ایک معجزے کی خبر آئی : "آج نارتھ امریکہ کے افق پر دو سورج جگمگاتے پائے گئے ہیں ۔" آج ایک کالم لکھنا تھا اونٹوریو کی پر یمئیر kathleen Wynneکے انڈیا جانے پر ۔ لکھ نہیں پائی ۔ کیا لکھوں ؟ ethnic media سے خطاب کرتے ہو ئے ان کے ہو نٹوں پر با ر بار انڈیا کا نام آتا تھا، پاکستانی اوریجن کے صحافیوں کے دلوں میں ایک سوال بار بار اٹھ رہا تھا ، ڈان ویلی ویسٹ کے جس علاقے کے لوگوں کے کندھوں پر یہ سوار ہو کر یہ محترمہ جیت سے ہمکنار ہو تی ہیں وہ علاقہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے ۔ یعنی پاکستانی وہاں اکثریت میں ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ وہ انڈیا تو جا رہی ہیں مگر اس کے پڑوس میں واقع پاکستان نہیں، جانا تو دور کی بات ان کے منہ سے پاکستان کا لفظ تک نہیں نکلا ۔ کیا یہ ڈان ویلی کے پاکستانیوں کی شکست نہیں ؟کیا وہ اس کے منہ سے ایک دفعہ بھی پاکستان کا نام نہیں نکلوا سکتے ۔۔ سوال الفاظ بن کر اپنے ہی اس علاقے کے ساتھیوں پر برسے ،کیونکہ پرئمیئر نے صرف خطاب کیا تھا ، سوال جواب کا موقع نہیں دیا تھا ۔ ڈان ویلی کے ساتھیوں نے بڑا منہ توڑ جواب دیا ۔۔انہوں نے کہا پاکستانی وزیروں یا صنعت کاروںنے کینیڈا کے کتنے ٹریڈ مشن کئے ہیں ؟کیا پاکستان کے حالیہ وزیر ِ اعظم یا کسی صوبے کے وزیر ِ اعلی کبھی کینیڈاتشریف لائے ہیں ؟ نریندر مودی پہلے پیٹر ک برائون کے دوست بھی تھے اور اب جب وہ آئے تو یہاں کی انڈین بزنس کمیونٹی نے باقاعدہ ہوم ورک کر رکھا تھا ۔ ایک ایک لمحہ ملک کی معیشت اور بزنس کو کیسے فروغ دیا جائے ، وہ لوگ اس پر خرچ کرتے ہیں، فیملی پکنک پر نہیں نکلتے ۔
یہ تو ان کا منہ تو ڑ جواب تھا پھر ہم نے سوچا …
پاکستان اورکینیڈاکے درمیان تجارت کو فروغ دینے والی تنظیمیں کیا کر رہی ہیں ؟ لنچ ، کرا چی سٹاک ایکسچینج کے دورے ؟ بڑی اعلی شخصیات سے ملاقاتیں ؟ فوٹو سیشن ؟ آج بھی کینیڈا کی ٹورزم کی سائٹ پر پاکستان کا نام سیکورٹی رسک والے ملکوں میں ہے ۔ آپر یشن ضرب ِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے بعد صورتحال بالکل نہیں بدلی؟ اور اگر بدلی ہے تو اس سائٹ پر کوئی اسے اپ ڈیٹ نہیں کروا سکا۔ یہ کینیڈا پاکستان کے درمیان بزنس کو فروغ دینے والی تنظیمیں اچھے اچھے کپڑے پہن کر تصویریں کھنچوانے کے علاوہ کیا کر رہی ہیں ؟
کیا یہ لوگ کسی کو جواب دہ ہیں ؟ یا جس طرح پاکستان میں بڑے چور کاریگر اسی طرح یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ؟ کیا کبھی کسی مشن کے بعد ، یا کسی پاکستانی دورے کے بعد ان لوگوں نے یہ زحمت کی کہ یہاں کے پاکستانی میڈیا کو ہی بلا کر اپ ڈیٹس دے دی جائیں یا انہیں باخبر رکھا جائے اور ان سے بھی تعاون یا مشورہ یا رائے مانگا جائے یا کم از کم انکے دلوں میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب ہی دے دیا جائے ۔
انڈین قائم مقام قونصل جنرل پی کے پیرنیدا ان کا بیان میں پڑھ رہی تھی کہ انڈیا کینیڈا کی اکنامی کو 7.5%کی شرح سے بڑھنا چاہیئے ۔ ایک ٹارگٹ ہے ان کے ذہن میں ۔۔ حالا نکہ قائم مقام ہیں ۔
میں اگر آج بھی اس طرف نشاندہی نہیں کر ئوں گی تو خود کو بھی تاریخ کا مجرم سمجھوں گی ۔ مجھے کسی اعلی عہدے دار ، صاحب ِ طاقت میں پاکستان کینیڈا کے درمیان ٹریڈ کو بہتر بنانے کی مخلصانہ کوشش نظر نہیں آرہی ۔ اگر کو شش ہو رہی ہے توکم از کم ہماری نظروں سے اوجھل ہے ۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کمی کہاں پر ہے ؟ کیا حکومت ِ پاکستان کی نااہلی ، سستی اور کینیڈا میں اپنے بزنس نہ ہو نے کی وجہ سے عدم دلچسپی ہے یا یہاں پاکستان کے نمائندے اور پاکستان کینیڈا کے درمیان تجارت کو بڑھاوا دینے کے لئے معرض ِ وجود میں آنے والی تنطیمیں وہی کام کر رہی ہیں جو پاکستان میں ہو رہا ہے ، یعنی صرف اپنا ذاتی فائدہ ؟
حکومت ِ پاکستان کو کینیڈا کے ساتھ تجارت کو سنجیدہ طریقے سے لینا چاہیئے ۔۔ تقریبا 500000کینیڈا میں بسنے والے پاکستانیوں کو ہی ذہن میں رکھا جائے اور یہ پاکستانی ،پاکستانی مصنوعات پر 10Kسالانہ خرچ کر یں تو آرام سے اسی سے پانچ بلین ڈالر کی تجارت ہو سکتی ہے ۔ مگر کرے کون ؟ اب دل کا یہ عالم ہے کہ دوسروں پر کیا ، خود اپنے الفاظ پر یقین نہیں رہا ۔ میں نے یہ کالم انتہائی بے دلی سے لکھا ہے ۔ کہا جاتا ہے جب دل سے دعا کی جائے تو پو ری ہو تی ہے ۔ اور جو دعا پو ری ہو نی ہو اس کے کر تے ہی دل سکون سے بھر جاتا ہے ۔ یہی حال الفاظ کا ہے ۔لکھتے ہی کہیں نہ کہیں پہنچنے کی امید نظر آجائے تو دل سکون سے بھر جا تا ہے ۔ مگر اب جب دل کے اندر سچ کا سورج مر چکا تو سب امیدیں دم تو ڑ چکیں ، اسی لئے الفاظ بے وقعت اور کھوکھلے سے لگ رہے ہیں ، جب اپنی آواز اپنے ہی کانوں تک پہنچنے سے قاصر ہو جائے تو کسی اور کے کان تک کیا پہنچے گی ۔ بس آج جو بھی لکھنا تھا لکھ نہیں پا ئی اور جو لکھا وہ شائد نہیں لکھنا چاہیئے تھا۔ کینیڈا کے افق پر دو سورج اگنے کا راز ہم پاکستانیوں سے زیادہ اور کوئی نہیں جان سکتا ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024