چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے بظاہر اچانک اپنے عہدہ کی معیاد ختم ہونے پر اسی سال کے آخر میں ریٹائر ہو جانے کے اعلان پر اندرون ملک مختلف حلقوں اور سیاستدانوں کا جو ملا جلا تاثر سامنے آیا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان دوست ممالک اور پاکستان مخالف ملکوں اور میڈیا کا ردعمل بھی قارئین کرام پڑھ چکے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے آرمی چیف کے اس اہم فیصلہ پر جو بیانات دیئے ہیں اس سے انکی آرزئوں کی عکاسی ہوتی ہے جس پر میرا تبصرہ غیر مناسب ہے۔ ہاں اگر دوست احباب کڑوا سچ سننا چاہیںتو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے اور ملک سے باہر قیام پذیر سیاست دانوں کی شطرنج کی چالیں روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہیں دوسرے لفظوں میں بلی ہو یا بلا تھیلے سے باہر آ گئے ہیں۔ اتنے بڑے اعلان پر وزیراعظم خاموش ہیں لیکن وزیر دفاع نے بیان دیا ہے کہ انکی وزارت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کوئی سمری وزیراعظم کو ارسال نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا فیصلہ وزارت دفاع کی سمری پرموقف نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار بہت سے دیگر نوعیت کے اندرونی و بیرونی مشورے ہوتے ہیں جو آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ کے موقع پر قومی سلامتی کے تقاضوں علاقائی ماحول اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم کے آرمی چیف پر پاکستان کے اعلیٰ ترین مفادات کے تقاضے ہوتے ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی بھی وزیراعظم نے ہمیشہ ایسے فیصلے کرتے وقت قومی مفاد کی بجائے اپنی ذات اور اپنی سیاسی پارٹی کے اقتدار کو طول دینے پر ترجیح دی۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو نہ صرف توسیع دی گئی بلکہ اسے اپنے عہدہ پر برقرار رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اس فیصلہ کے بعد ملک و قوم پر جو کچھ گذری ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر سنجیدگی سے آرمی چیف کے اعلان پر غور کیا جائے تو اس فیصلہ کے پس منظر پر 16 دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ سے لیکر چارسدہ یونیورسٹی پر دہشتگردوں کے وحشیانہ حملہ تک کے دورانیہ میں تمام حالات کا گہرائی سے جائزہ لینا ہو گا۔ جس میں دہشتگردوں کے ہاتھوں ملک بھر میں امن و امان کی بحالی اور ہزاروں پاکستانی شہریوں کی جانوں اور دفاعی اداروں عبادت گاہوں تعلیمی اداروں پر جو قیامتیں ٹوٹیں اور دہشتگردوں‘ انتہاء پسندوں مذہب اور فرقہ واریت پر مبنی شہادتوں اور مختلف نوعیت کی مافیا کی طرف سے لوٹ مار کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں رجسٹرڈ و نان رجسٹرڈ مدرسوں اور بیرونی فنڈ زسے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ نہ کسی کااحتساب کیا گیا نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرا کر عبرتناک سزادی گئی۔ بلکہ جرائم پیشہ لوگوںکے خلاف ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مقدمے عدالتوں میں لٹک رہے ہیں اور جو مجرم اعلیٰ ترین عدالتوں سے اپنے سنگین جرائم پر پھانسی کی سزا پر اپنی تمام رحم کی اپیلیں بھی صدر مملکت کی آخری حد تک تمام آئینی و قانونی حدود ختم ہو جانے پر برسوں پہلے تختہ دار پر لٹکا دیئے جانے تھے وہ آج تک جیلوں میں کال کوٹھری کی بجائے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان رینجرز نے سندھ اور بلوچستان میں اور خاص طور پر کراچی میںنہ صرف برسوں کے بعد کراچی کی روشنیاں بحال کر کے بدامنی بھتہ خوری‘ فرقہ واریت کا خاتمہ کر کے بڑی مچھلیوں کیخلاف احتساب کا عمل شروع کرنے کی ابتداء کی ہے تو بعض سیاسی لیڈروں نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دی ہیںاور بعض نے کھلم کھلا اعلان کئے ہیں کہ اگر انکے کارندوں جن میں ہر سطح کے اونچے نیچے اہلکار و عہدیداران شامل ہیں کسی پر بھی ہاتھ ڈالا گیا تو وہ کاروبار حکومت اور عام آدمی کی زندگی کو معطل کر دینے سے گریز نہیں کرینگے۔ بات یہاں تک بڑھی کہ ایک صوبے کی حکومت نے وفاقی حکومت کو چیلنج کر دیا کہ اگر وفاق نے انکے معاملات میں دخل اندازی بند نہ کی تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ایسی تمام خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے 20 پوائنٹ پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس کی تشکیل میں تمام سیاسی پارٹیوں کی رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور پارلیمنٹ کے آشیر باد شامل تھیں اس کے باوجود ایک سال سے زیادہ عرصہ قوم کے اس نامساعد اور غیر یقینی حالات کے عذاب سے گزرنے کے باوجود وزیراعظم کو خود یہ تسلیم کرنا پڑا کہ قومی ایکشن پلان سست روی کا شکار ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض حلقوں کی طرف سے جن میں بعض سیاستدانوں کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزراء بھی شامل ہیں افواج پاکستان اور نہ صرف وردی میں ملبوس بلکہ قومی آبادی کی واضح اکثریت سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف کی گزشتہ ایک سال کی قائدانہ صلاحیتوں اور کردار کے باعث انکی گرویدہ ہے اس امر پر بعض حلقے جن میں پبلک میڈیا کچھ پردہ داروں کے نام بھی لیتی ہے۔ پاک فوج اور اسکے سپہ سالار پر فخر کرنے کی بجائے ایک نا قابل بیان نا پسندیدگی اور جلن یا رقابت کے باعث عوام الناس میں افواج پاکستان اور انکے سپہ سالار سے خائف ہو کر انکی شہرت کو عوام کی نظروں میں کاوش نہ تمام کی مرض میں مبتلا ہیں۔ فوجی قیادت اور جنرل راحیل شریف جیسا محب وطن سپاہی شطرنج کی ان چالوں سے ناواقف نہیں ہو سکتا۔ اس غیر یقینی اور قومی سلامتی کیلئے نقصان دہ فضا کو ختم کرنے کیلئے آرمی چیف کی طرف سے انکے تاریخی فیصلے کا اعلان ضروری تھا۔ ورنہ نارمل حالات میں کسی آرمی چیف کو اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک سال قبل ایسا بیان دینا کسی ملک میں سننے میں نہیں آیا۔
موجودہ نازک گھڑی کا پوری قوم کے لئے وقت امتحان ہے اور عوام کی خواہشات اور توقعات پر پورا اترنا ہی وزیراعظم نواز شریف اور افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کا مقدس فریضہ ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024