اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔اسکے دئیے ہوئے اصول ابدی صداقتوں کے امین ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی بذات خود ہر لمحہ تغیر و تبدل سے دو چار ہے ۔ وہ ایک مقام پر کھڑی نہیں رہ سکتی اس کے بطن سے ہر لمحہ لاکھوں بلکہ کروڑوں واقعات و حوادث کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے اس لیے ناگزیرہے کہ اسلام کی ابدی اور غیر متغیر صداقتوں کی روشنی میں بدلتے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہے ۔ عہد رسالت ؐمیں چونکہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری تھا اس لیے اقامت دین کے سفر میں ہر موقع و محل کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات دی جاتی رہیں۔ اسکے باوجود حالات کے بدل جانے کی وجہ سے بعض احکامات کو منسوخ فرماکر نئے احکامات دیے گئے۔ اس طرح کی ناسخ اور منسوخ آیات کریمہ اب بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ سابقہ شرائع میں تبدیلی بھی اسی سلسلہ عمل کا حصہ ہے جب کہ دین ہمیشہ ایک رہا۔
اس معاملہ میں شارع علیہ السلام نے امت کو واضح ہدایات دیں اور اپنی سنت سے بھی نمونہ عمل چھوڑا۔ مثال کے طو رپر حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے جب حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا تو ان سے استفسار فرمایا کہ ’’ اگر تمہیں کوئی مسئلہ پیش آئے تو کیا کرو گے ؟ انہوںنے عرض کیا کہ ’’ میں سب سے پہلے قرآن مجید سے رجوع کروں گا اور اس مسئلے کے متعلق جواب دوں گا ‘‘ فرمایا کہ اگر زیر نظر مسئلہ کے متعلق قرآن حکیم سے جواب نہ ملے تو پھر کیا کرو گے ؟ عرض کیا کہ پھر میں آپ ؐ کی سنت اور حدیث سے رجوع کروں گا۔‘‘ حضور ؐ نے فرمایا کہ اگر تمہیں وہاں سے بھی جواب نہ ملے تو پھر کیا کرو گے ؟ عرض کیا کہ ’’ یا رسول اﷲ ؐ اس صورت میں غور کروںگا اور اجتہاد کروں گا ۔ ‘‘ یہ سن کر حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے ان کی تحسین فرمائی اور ان کے لیے دعا فرمائی ۔‘‘ اس حدیث کو بہت سے محدثین نے اپنی اپنی کتابوں (جوامع ) میں درج کیاہے ۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس حدیث کو اپنی تالیف ’’الفاروق ‘‘ میں درج کیا ۔ ( صفحہ 330‘ 331)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسی حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت ابو موسی ٰ اشعری ؓ کو قضا سے متعلق یہ تحریر بھیجی ۔ ترجمہ:’’ جو چیز تمہیں قرآن و حدیث سے نہ ملے اور تم کو اس کی نسبت میں شبہ ہو تو اس پر خوب غور کرو ۔اس کی ہم صورت اور ہم شکل واقعات کو دریافت کرو اور پھر ان سے قیاس کرو ۔ ‘‘ (الفاروق شائع کردہ مکتب اسلامیہ 331)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بے شمار ایسے مسائل میں اجتہاد کیا اور آئمہ و مجتہدین نے ان کی تقلید کی ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ نے ان مسائل کی تعداد ایک ہزار لکھی ہے جن میں کچھ کا تعلق علم فقہ یا علم تفسیر سے ہے یہ سطور ان تفاصیل کی متحمل نہیںہو سکتیں البتہ ہم آپکی ان اصلاحات اور تدابیر کے حوالے سے اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں جن کی نظیر عہد رسالت ؐ یا عہد صدیقی ؓ میں نہیں ملتی مثال کے طورپر ۔
آپ نے پہلی مرتبہ باقاعدہ فوج قائم کی اور مجاہدین کی تنخواہوں کو مقرر کیا ۔ عدالتی نظام قائم کیا اور قاضی مقرر کیے ۔ محکمہ مال قائم کیا جس میں زمینوں کی پیمائش‘ ان کی ملکیت اور خرید و فروخت کے قوانین وضع کیے ۔ مفتوحہ علاقوں کو صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر صوبہ میں گورنر کا تقرر کیا ۔ سلطنت کی حدود میں نہری نظام قائم کیا ۔محکمہ عشرو زکوٰۃ تو پہلے سے قائم تھا لیکن آپ نے اس سے متعلق قوانین وضع کیے ۔ دریائی پیداوار مثلاً ’’ عنبر‘‘ وغیرہ پر ٹیکس عاید کیا اور ٹیکس کے حصول کیلئے ’’ محصل ‘‘ مقرر کیے ۔ آپ نے جیل خانہ جات تعمیر کیے ۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا ۔ پرچہ نویسوں کا تقرر کیا ۔ مردم شماری کا محکمہ قائم کیا ۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک مہمان خانے تعمیر کروائے ۔ غیر مسلم اقلیتوں مثلاً عیسائیوں اور یہودیوں کے مفلوک الحال لوگوں کے روزینے مقرر فرمائے ۔ سن ہجری کا آغاز فرمایا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا طریقہ جاری فرمایا۔ فجر کی اذان میں ’’ الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کا اضافہ فرمایا ۔ ( جس کی تفصیل موطا امام مالک ؒ ہی مذکور ہے ۔) جگہ جگہ فوجی چھائونیاں قائم کیں ‘ غرض کہ مولانا شبلی نعمانی نے آپکے اجتہادی مسائل کی تعداد پینتالیس (45) بیان کی ہے۔
ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کوئی جامد نظام نہیں بلکہ شارع علیہ السلام اور آپ کے خلفائے راشدین ؓ نے گزرتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کیلئے ایک متحرک اور ترقی پسند نظم حکومت کی بنیادیں استوار کیں ۔ اگرچہ خلفائے راشدین کے بعد نظام حکومت اپنی اصل شکل میں برقرار نہ رہ سکا لیکن علمی میدان میں آزادانہ تحقیق و اجتہاد کا سلسلہ جاری رہا ۔ آئمہ مجتہدین کا دور اسی عہد ملوکیت سے تعلق رکھتا ہے۔
عہد رسالت کے بعد علوم کی تحصیل کا شوق ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا ۔ اس زمانہ میں مساجد نے کثیر المقاصد ادارے کا رول ادا کیا ۔ مسجد بیک وقت ایوان شوریٰ ‘دار القضاۃ ‘ ایوان تربیّت ‘ دیوان خاص و عام ‘ جامع درسگاہ اور عبادت گاہ تھی جس میں مستقبل کے معلمین‘ سپہ سالار‘ قاضی ‘ مدبر اور داعی تیار ہوئے ۔ مشہور مورخ یعقوبی کیمطابق تیسری صدی ہجری میں صرف بغداد میں تیس ہزار مساجد مختلف علوم و فنون کا مرکز تھیں ۔ جامع عمر ‘ جامع دمشق ‘ جامع المنصور ‘ اور جامع ازہر کا شمار ایسی یونیورسٹیوں میں ہوتا تھا جو اربوں دینار کے اخراجات سے تیار ہوئیں ۔ چوتھی صدی ہجری میں مساجد کے علاوہ مدارس کی تشکیل کا آغاز ہوا اور ایک ایسے نظام تعلیم کی تشکیل کی گئی جس میں دینی اور دنیوی تعلیم کے علیحدہ علیحدہ خانے نہیں تھے۔ اس نظام میں قران حکیم اور احادیث رسول ؐ کیساتھ ساتھ سائنسی علوم بغیر کسی انتشار کے ایک ہی رشتہ وحدت میں منسلک تھے۔ اس دور میں بڑے بڑے سائنس دان پیدا ہوئے اور سائنسی علوم کا تعلق قرآن حکیم کے بیان کردہ آثار کائنات سے جڑا رہا ۔ زندگی کے متغیر تقاضوں کو قرآنی تعلیما ت سے ہم آہنگ کرنے اور اسی بصیرت سے کائنات کے سر بستہ اسرار کی تحقیق اور جستجو کا کام بھی جاری رہا۔ اگر نظام تعلیم میں کہیں دوئی پیدا ہونے لگی تو اہل علم نے جانفشانی سے کام لے کر اس کی اصلاح کر دی ۔ مثلاً پانچویں صدی ہجری میں جب متکلمین کے ہاں یونانی فلسفہ کے زیر اثر علوم دین اور علوم دنیا کو علیحدہ کرنے کا رحجان پیدا ہوا تو امام غزالی (450 ھ تا 505ھ بمطابق 1055ء تا1111ء ) نے متکلمین کے اسلوب اور مذاق کے مطابق دلائل کا انبار لگا دیا ۔ ان کی کتاب ’’ احیاء العلوم ‘‘ اس زمانہ کی فکری کشمکش کی کہانی ہے ۔ امام صاحب نے ’’ علوم دین ‘‘ اور ’’ علوم دنیا‘‘ کی تفریق کے حوالے سے نہایت مدلل ‘ مربوط اور نا قابل تردید دلائل دے کر ایک ہمہ گیر نظام تعلیم کو نئی شکل و صورت دی جسے رفتہ رفتہ جملہ بلاد اسلامی کے عملی حلقوں نے تسلیم کر لیا ۔ یاد رہے کہ امام غزالی ؒ اس زمانے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ’’ نظامیہ بغداد‘‘ کے صدر ( آج کی اصطلاح میں ریکٹر) تھے۔
اگرچہ تصنیف و تالیف کے حوالے سے اس دور میں آج کی طرح سہولتوں کا نام و نشان نہ تھا لیکن ہمارے با ہمت اسلاف نے ہر موضوع پر کتابوں کے انبار لگا دیے ۔ 435ھ میں ابو القاسم الجرجانی کے حکم سے قاضی ابو عبداﷲ اور ابو خلف الوراق نے اس زمانہ کی کتابوں کی فہرست تیار کروائی تھی جو چالیس جلدوں پر مشتمل تھی ۔ آج ہمیں اپنے اسلاف کی کتب کے نام تک معلوم نہیں لیکن یورپ کی لائبریریوں میں ان کتابوں کے انبار کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا۔
مگروہ علم کے موتی ‘ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیںان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
یہ سطور ان تفاصیل کی متحمل نہیں ۔ ان اشارات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں کا یہ دور عروج تصنیف و تالیف ‘تحقیق اور ریسرچ کے اعتبار سے مثالی تھا اور مسلمان اہل علم کا پلہ ساری دنیا پر بھاری تھا ۔ دسویں صدی ہجری تک مسلمانوں کی علمی ترقی مسلمہ تھی ۔ یورپ کے محققین عربی میں لکھی گئی کتب کا ترجمہ کر کے اپنے ملکوں میں پھیلا رہے تھے۔ پوپ سلوسٹر نے 1160ء میں باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا جو عربی تصانیف کا لاطینی زبان میں ترجمہ کرنے پر مامور تھا ۔ رابرٹ بریفالٹ نے اپنی کتاب )۱و شخص اس موضوع پر تحقیق کرنا چاہے وہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام جلد دوم صفحہ 1046 ‘ امام راغب کی کتاب ’’ تاریخ افکار علوم اسلامی ‘‘ ‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب’’ یورپ پر اسلام کے احسان ‘‘ ڈاکٹر شبلی المصری کی کتاب ’’ تاریخ تعلیم و تربیت اسلامیہ ‘‘ اور سید ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’ تاریخ دعوت و عزیمت ‘‘ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔(’’Making of Humanity‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ یورپ کی ترقی کا کوئی ایسا گوشہ نہیںجس پر اسلامی تمدن کے اثرات موجود نہ ہوں ۔ یہ اثرات ہر کہیں موجود ہیں جو جدید دنیا کی تشکیل میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔جس چیز کو ہم سائنس کہتے ہیں یہ علم یورپ میں معلومات کے تجسس ‘ تحقیق کے نئے طریقوں ‘ تجربات و مشاہدات اور علم ریاضی میں ترقی کی وجہ سے وجود میں آیا جو یونانیوں کے ہاں نہیں تھا۔ تحقیق و تجسس کے یہ پیمانے عربوں نے دنیا کو سکھائے۔‘‘ (صفحہ 190)
مسلم حکومت جب زوال سے دو چار ہوئی تو یہ زوال بھی ہمہ جہت تھا ۔ ٹھیک اسی دور میں مغربی دنیا صدیوں کے خواب غفلت سے بیدار ہوئی ۔ تحریک احیائے علوم (Rennassance) کے بعد زندگی اور اس کے متعلقات کے حوالے سے آزادانہ غور و فکر کے رحجانات نے جنم لیا ۔ عہد جدید کے فلاسفر وںنے جو سوالات اٹھائے عیسائیت ان کا جواب فراہم کرنے سے قاصر تھی چنانچہ کلیسا نے ہولناک سزائوں سے اس علمی تحریک کا مقابلہ کیا ۔ لیکن اس تشدد کے نتیجہ میں تحریک زور پکڑتی گئی حتیٰ کہ مذہب بیزاری کا رویہ عام ہوگیا ۔ سترھویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط تک کے دوران میں جو سائنس دان اور فلاسفر پیدا ہوئے انہوںنے کائنات کے آثار کی توجہیہ میکانکی نقطہ نظر سے کی جس کا مفہوم یہ تھا کہ کائنات کا نظام ’’ نیچرل ‘‘ قوانین کے مطابق چل رہا ہے ۔ ڈیکارٹ(م۔ 1650ئ)‘ ہابس (م …1679ئ)‘ اسپونئزا (م1677ئ)‘ لائبنیز ( م ۔ 1716ئ) ‘ لاک ( م۔ 1704ئ) وغیرہ وہ ابتدائی فلاسفر تھے جنہوں نے ’’ عقلیت ‘‘ ‘ مادیت ‘‘ اور ’’نیچریت ‘‘ کے سہ گانہ عناصر پر اپنے فلسفہ کی بنیادیں استوار کیں ۔ ان کے دور میں خدا کا تصور بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ہیگل نے مادیت کے مقابلہ میں ’’ تصوریت ‘‘ کا فلسفہ اجاگر کیا ۔ کانٹ نے درمیانی راستہ نکالا کہ خدا کی ہستی اور روح کی بقا ان چیزوں میں نہیں جو ہمارے علم میں آ سکیں اس لیے ان پر صرف ایمان لایا جا سکتا ہے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024