جمعہ کے نوائے وقت میں نوے سالہ بزرگ شاعر حامد علی نقوی کی وفات کی خبر پڑھی تو اچانک مرحوم سے بھولی بسری ملاقاتوں کے مناظر یادوں کے پردے پر جھلملانے لگے۔ 1981ء کے دوران میں نے روزنامہ مشرق میں ’ظفر موج‘ کے زیر عنوان کالم نگاری کا آغاز کیا۔ ساتھی کالم نگاروں میں انتظار حسین‘ ضمیر جعفری اور مستنصر حسین تارڑ جیسے قلم کاروں کے نام شامل تھے۔ دو تین سال بعد ہماری صف میں ایک نئے کالم نگار کا اضافہ ہوا۔ کالم کا عنوان تھا ’’کون کس حال میں ہے‘‘ کالم نگار کا نام حامد علی نقوی تھا۔ اس کالم میں نقوی صاحب حالات کے ستم رسیدہ‘ گمنام اور گوشہ نشین اہل قلم کی روداد آشکار کیا کرتے تھے۔ گمنام شاعروں کی جستجو میں انہوں نے اندرون لاہور کے ایک سو سالہ بزرگ شاعر فیروز الدین فیروز کو ڈھونڈ نکالا جو کشمیری بازار میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے۔ فیروز الدین فیروز پر لکھے گئے کالم نے وہ تاثیر دکھائی کہ صدر پاکستان نے ایک خصوصی قاصد کے ہاتھ فیروز الدین فیروز کو پھولوں کا ایک گلدستہ بھجوایا۔ اخباری فوٹو گرافروں نے اس تقریب کی تصاویر بنائیں جو اگلے روز کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ نتیجہ یہ کہ گلدستہ بدست سو سالہ گمنام شاعر کا نام پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد ہم نے حامد علی نقوی کو تلاش کیا اس طرح ہمارے تعلقات کا آغاز ہوا۔ تعلقات میں بے تکلفی پیدا ہوئی تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ دوسرے اہل ادب کی غربت‘ مشکلات اور گوشہ نشینی کے اسباب کے کھوج لگا کر ’’کون کس حال میں ہے‘‘ کے زیر عنوان کالم لکھنے والا خود کتنے نامساعد حالات اور مالی پریشانیوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ حامد علی نقوی ماضی کے مشہور شاعر افضل ہاپڑوی کے فرزند ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بچپن میں وہ بچہ مسلم نیشنل گارڈ کے کیپٹن تھے اور باآواز بلند اپنے والد کی لکھی ہوئی نظمیں پڑھتے شہر کے گلی کوچوں میں گشت کیا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کے 34ویں سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں جبکہ ان کی عمر دس گیارہ سال تھی انہیں قائداعظم سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کس ہاتھ سے مصافحہ کیا تھا تو انہوں نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اپنا دایاں ہاتھ ہمارے سامنے لہرایا۔ میں نے فوراً انکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں دبوچ کر اس کا ایک طویل بوسہ لیا۔ اس جذباتی کیفیت میں یوں لگا جیسے قائداعظم کے ہاتھ کا لمس میرے ہاتھوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ میرا جذباتی جوش دیکھ کر انہوں نے مجھے ایک شعر سنایا جسے وہ تحریک کے دوران گلی گلی باآواز بلند ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔ …؎
بچہ بچہ آج مسلم لیگ کا پرجوش ہے
خادم ملت ہے‘ یعنی وہ کفن بردوش ہے
حامد علی نقوی محکمہ تعلیم میں دسویں گریڈ کے ملازم تھے۔ اپنے فرائض پوری ایمانداری سے ادا کرتے تھے۔ ان کی ایمانداری بعض اوقات افسران بالا کو پریشان کر دیتی تھی۔ ایسی ہی ایک جرات رندانہ پر انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ نوکری سے علیحدگی کے بعد انہوں نے بے شمار درخواستیں متعلقہ افسران کو دیں اور پینشن اور واجبات کی ادائیگی کی استدعا کی لیکن سال ہا سال تک جوتے گھسانے کے باوجود انہیں اپنے حقوق سے محروم رکھ گیا۔ تنگ دستی اور طویل پریشانی کی اس کیفیت میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور محکمہ جاتی زیادتیوں کے خلاف نظیمیں لکھیں۔ پہلی طنزیہ نظم 60 سال کی عمر میں کہی جس کا موضوع محکمانہ ناانصافی تھا۔ اس طرح ’بقول سابق کلکٹر کسٹمز سید مظفر احمد ضیائ) ساٹھ سالہ پرانے راکھ کے ڈھیر میں چھپی ہوئی چنگاری ایک انگارہ بن کر سامنے آئی اور اس انگارے سے شاعری کی پھلجھڑی روشن ہوئی۔
1982ء میں انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ محکمہ تعلیم میں ہونے والی زیادتی پر پہلی نظم کہی اسکے ابتدائی اشعار کچھ یوں تھے…؎
تعلیم کے دفتر کے مظالم ہیں مثالی
مجھ پر جو چلی ظلم کی تلوار چلالی
کچھ بس نہ چلا اور تو پینشن ہی دبا لی
خدمت تو اکتیس برس خوب کرا لی
حامد نقوی کے نظمیہ حملوں پر محکمہ تعلیم کے افسران سیخ پا ہوئے تو حصول انصاف کے لئے لڑنے والے حامد نقوی نے یہ شعر افسران سیخ پا کی نذر کیا۔
حق رسی ہی کی بات کرتا ہوں
ناک بھوں کیوں چڑھائی جاتی ہے
4 اپریل 1986ء کو میں نے اپنے کالم میں انکے مصائب اور ہمت کی نقشہ کشی کی۔ کالم کا عنوان تھا۔ ’’کون کس حال میں ہے کا مصنف خود کس حال میں ہے‘‘۔ اس پر حامد نقوی شکریہ ادا کرنے کے لئے غریب خانہ پر تشریف لائے۔ وہ خستہ لباس میں ملبوس اور ایک خستہ تر سائیکل پر سوار تھے۔ بعدازاں انہوں نے ایک ادبی ماہنامہ ’فانوس ادب‘ جاری کیا۔ شاعری کا دائرہ وسیع کیا۔ بچوں کے لئے نظموں کا مجموعہ ’’مالن‘‘ اور شاعری کا مجموعہ ’’افکار حامد‘‘ ان کی یادگار ہیں۔ افسوس کہ زندگی بھر حالات کی سنگینی برقرار رہی۔ 17 جنوری کو زندگی گزیدہ حامد علی نقوی کے انتقال کی خبر پڑھی تو بے ساختہ ان کا ایک شعر یاد آگیا۔…؎
زندگی نے پلٹ کر نہ دیکھا مجھے
اب میری خاک تربت کو کیا دیکھنا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024