وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ طالبان پر اب زیادہ یقین نہیں رہا، ان کیخلاف کارروائی کرنی ہے یا مذاکرات، اس حوالے سے وزیراعظم جو بھی حکم دینگے اس پر عمل کیا جائیگا۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولوی فضل اللہ طالبان کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر فضل اللہ اینڈ کمپنی مذاکرات نہیں چاہتی تو پھر دوسرا آپشن بتائے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات یا اپریشن کا فیصلہ اپوزیشن کے اتفاق رائے سے مشروط ہے۔
اس وقت جبکہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر قومی، سیاسی اور عوامی قیادتوں میں اپریشن کیلئے اتفاق رائے قائم ہو چکا ہے اور شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے اپریشن نے دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے جس کے تناظر میں طالبان کی جانب سے مذاکرات پر نہ صرف آمادگی کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ ابھی تک اپریشن کے معاملہ پر گومگو کا شکار ہی نظر آتے ہیں اور وہ اپنے ہی بقول مذاکرات کو سبوتاژ کرنیوالے فضل اللہ گروپ سے ہی پوچھ رہے ہیں کہ مذاکرات نہیں تو پھر کونسا آپشن ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے جس اجلاس میں انہوں نے مذاکرات کیلئے اپوزیشن کے اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا اس اجلاس میں بھی اکثریتی ارکان کی جانب سے اپریشن کا آپشن اختیار کرنے کا تقاضہ کیا گیا۔ جب طالبان اور دہشت گردی میں ملوث دوسرے گروپ بندوق اور بارود کے زور پر ہی اپنا من مانا ایجنڈہ تسلیم کرانے اور نافذ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جس کا حکومت سیاسی اور عسکری قیادتوں کو بھی احساس ہے تو پھر ان سے حکومتی ریاستی اتھارٹی تسلیم کرانے اور ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کیلئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر نتیجہ خیز اپریشن کے سوا کیا چارہ کار رہ جاتا ہے اس لئے چودھری نثار علی خاں اپنے ذہن میں موجود کسی ابہام کی بنیاد پر حکومتی پالیسی کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش نہ کریں اور یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کن اپریشن کی پالیسی طے کریں۔ اگر حکومتی گومگو کی پالیسی کے باعث دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے رہیں گے تو وہ کبھی مذاکرات پر آمادہ نہیں ہونگے جبکہ ٹھوس اقدام کے بغیر ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024