امریکی صدر ٹرمپ نے دورہ بھارت کے دوران ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر خطے میں کانٹے کی طرح ہے اور مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہئے اس دورے کے دوران انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بہتر تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کی۔مودی کے متنازع شہریت بل اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر کئے جانے والے اقدامات کے باعث دہلی سمیت بھارت میں پرتشدد مظاہروں اور بھارت کی حکومتی دہشت گردی کے متعلق ٹرمپ نے منافقانہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر مودی سے بات کی ہے اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ڈیل کرتے ہیں۔مسئلہ کشمیر 1947ء سے حل طلب ہے اور اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد پر اب تک عمل نہیں ہوا کیونکہ اقوام متحدہ دراصل امریکی ربڑ اسٹمپ ہے اور امریکی منشاء کے خلاف اقوام متحدہ میں شاز و نادر ہی فیصلے ہوپاتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اسی لئے حل نہیں ہورہا کیونکہ مسلم اکثریتی آبادی کو غیر مسلموں سے آزادی اور حق رائے دہی درکار ہے جو گزشتہ 70سال میں ممکن نہیں ہوا۔ اگر یہی معاملہ اس طرح ہوتا کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں سے آزادی اور حق رائے دہی درکار ہوتی تو امریکہ‘ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین سمیت تمام تر فورمز پر اس مسئلے کے حق میں تیز ترین مہم چلائی جاتی اور ایک سال کے اندر اندر یہ مسئلہ حل کرلیا جاتا جس طرح مشرقی تیمور میں غیر مسلموں کو انڈونیشیا سے علیحدہ ملک درکار تھا تو پلک جھپکتے ہی اقوام متحدہ کے ذریعے معاملہ حل کرالیا گیا۔
ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش صرف اور صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ انہوں نے مودی کو یہ مشورہ دیکر عملدرآمد کا آغاز کررکھا ہے کہ اسرائیل کے قیام اور توسیع کے متعلق ان کی پالیسی سے سبق سیکھ کر مودی بھی کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے مشن پر عمل پیرا ہیں اور جب وہ اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب ہوجائینگے کہ کشمیر میں غیر مسلم اکثریت آباد ہوجائے تو امریکہ کے ایک اشارے پر اقوام متحدہ کو دکھاوے کی عالمی تنظیم ثابت کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے ذریعے بھارت کو کشمیر میں استصواب کیلئے رضامند کرلیا جائے گا اور پھر یقینا نتائج سب کے سامنے ہیں کہ مسلم اقلیت بھارت سے آزادی کے حصول میں ناکام ہوجائے گی اور پھر ٹرمپ جیسے شاطر مسلم دشمن تمام لیڈرز یہی کہیں گے کہ کشمیریوں کا بنیادی مطالبہ پورا کرلیا گیا ہے اور اب مسئلہ کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد ہوچکا ہے اسی لئے اب مستقبل میں اس معاملے پر پاکستان کو کوئی حق نہیں کہ کشمیریوں کی حمایت کرے۔ٹرمپ ایک طرف دکھاوے کے امن پسند بن رہے ہیں تو دوسری طرف حالیہ دورہ بھارت میں 3ارب ڈالرز کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کرلئے۔ امریکہ کی اولین ترجیح ہی مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کو بڑھاکر دونوں فریقین میں اپنا اسلحہ فروخت کرنا ہے تاکہ امریکی معیشت مزیدمستحکم ہوسکے۔
ٹرمپ کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی تعریف کرنا دراصل حقائق تسلیم کرنا ہے کیونکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان نے دی ہیں اور سب سے موثر کارروائی بھی پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے کی ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان ہی واحد ملک ہے جسے اب تک اس جنگ میں فتح حاصل ہوئی ہے ورنہ تو امریکہ گزشتہ 18سال سے افغانستان میں بیٹھ کر بھی اب بادل نخواستہ اپنی شکست تسلیم کرچکا ہے اور اب افغانستان سے اپنی جان چھڑانے کے درپے ہے حالانکہ امریکہ افغانستان میں خطیر رقوم خرچ کرنے کے باوجود ناکامی سے دوچار ہے۔پاکستان نے اب دوٹوک اصولی موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان اپنی حدود میں ہر طرح کی دہشت گردی کے خاتمے کا مکمل ذمہ دار ہے اور پاکستانی حدود کے باہر پاکستان کی کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ پاکستان اپنی حدود سے نہ تو کسی ملک میں دہشت گردی کی حمایت کریگا اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کا موجب بنے۔ اسی لئے پاکستان نے طویل افغان سرحد پر باڑ لگاکر اپنی حدود کو محفوظ بنانے کی جانب تیز تر پیشرفت کا آغاز کررکھا ہے۔
بھارت میں متنازع شہریت بل کے بعد بھی ٹرمپ کی جانب سے یہ کہا جانا کہ بھارت میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور مودی اس بارے میں اقدامات کر رہے ہیں‘ ایک مضحکہ خیز انکشاف ہی ہے حالانکہ دنیا بھر میں مودی کے مذہبی منافرت کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین اور مسلمانوں پر زندگی تنگ کیا جانا کسی سے پوشیدہ نہیں۔اب تو دہلی میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوچکے ہیں اور کئی افراد کی ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی املاک‘ مساجد‘ دفاتر کو نذر آتش کیا جارہا ہے اور اس تمام معاملے میں بھارت کی سرکاری مشینری ہندوؤں کی مکمل سرپرستی کر رہی ہے اور ایسے حالات میں مسلم دشمنی کی چادر اوڑھے ٹرمپ کوبھارت میں سب اچھا ہی نظر آرہا ہے۔ پرتشدد مظاہروں کے باوجود اسے معمول کا معاملہ کہہ کر مذمت کرنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی۔
ٹرمپ کا دورہ بھارت حقیقت میں عملی طور پر تو بھارت کو جدید ترین اسلحہ فروخت کرنے کے علاوہ بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کی منصوبہ بندی کو مزید منظم کرکے ہر صورت پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کو روکنا‘ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے منصوبہ بندی اور بلوچستان و کراچی میں ملک دشمن ایجنٹوں کو مزید فعال کرکے پاکستان کو اندرونی خطرات سے دوچار کرنا تھا ۔ ٹرمپ کے دورے کے اثرات خطے میں امن کی جانب پیشرفت کے بجائے خدانخواستہ پاکستان میں دہشتگردی میں اضافے کی صورت میں ہی نظر آسکتے ہیں ۔ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کا اولین ہدف ہی سی پیک کو ہر صورت رکوانا ہے اور اس سازش میں وہ چند عرب ممالک کو بھی اپنی ہمنوا بناکر سازشوں پر عمل پیرا ہیں۔ ٹرمپ سے یہ امید لگالینا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائیں گے‘ بھارت میں مسلمانوں پر ہونیوالے تشدد اور غلط قوانین کو ختم کرائیں گے‘ ایسی سوچ سراسر حماقت ہی تصور کی جاسکتی ہے۔امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے مختلف علاقوں میں مختلف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ امریکی مفاد کا حصول کہیں بادشاہت‘ کہیں جمہوریت‘ کہیں امن اور کہیں جنگ کی صورت میں حاصل کیا جاتا ہے اور امریکی مفاد کے حصول میں نہ تو انسانی حقوق آڑے آتے ہیں اور نہ ہی مذہبی آزادی کی کوئی اہمیت ہے۔سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہ بھی طاقت کا منبع اﷲ رب العزت کی ذات کے بجائے نعوذ باﷲ امریکہ کو ہی سمجھتے ہیں اور انکے ذہنوں میں یہ بات نقش ہے کہ اگر امریکی خوشنودی کیمطابق فیصلے کرینگے تو ہمارے اقتدار کی مدت طویل تر ہوتی چلی جائیگی اور اگر امریکی ہاں میں ہاں نہ ملائی تو ہمیں اقتدار سے محروم کردیا جائیگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024