پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز ہے۔ امریکہ افغانستان سے بتدریج رخصتی کے لئے پر تول رہا ہے۔ وہ ہمارے عظیم دوست چین کی روز افزوں عسکری و اقتصادی طاقت کو اپنی عالمی چودھراہٹ کیلئے سنگین خطرہ تصور کر تا ہے۔ چنانچہ اس نے ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت کو چین کے اثر و رسوخ کو محدود رکھنے کی خاطر اپنا تزویری اتحادی بنا لیا ہے۔ امریکہ نے ہمارے دیرینہ دوست ایران سے بھی سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں کئی دہائیوں سے خانہ جنگی کے شکار افغانستان میں امریکہ طالبان امن معاہدہ کے باوجود حقیقی امن کی منزل مختلف افغان دھڑوں کے مابین شدید بداعتمادی کے باعث ابھی دور دکھائی دیتی ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے انڈین یونین کا حصہ بنا لینے اور بعد ازاں شہریت کا متنازعہ ایکٹ متعارف کرانے سے وہاں کے مسلمانوں میں جس بے چینی اور انتشار نے جنم لیا ہے‘ اس سے پاکستان کسی طور لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ نریندرا مودی سرکار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔ اس کی نسل پرستی اور فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کے خلاف عالمی برادری کے مدھم ردّعمل نے اس کا حوصلہ مزید بلند کر دیا ہے اور بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت اب پاکستان اور آزادکشمیر پر حملے کی کھلم کھلا دھمکیاں دینے پر اُتر آئی ہے۔ در حقیقت انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی چیمپئن امریکہ نے بھارت کو تین ارب ڈالر کا مہلک اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کر کے یہ باور کرایا ہے کہ اس دنیا میں اہمیت صرف مالی مفادات کو حاصل ہے اور انسانی حقوق کا راگ بھی محض نظریۂ ضرورت کے تحت ہی الاپا جاتا ہے۔
بھارت کی سفاکیت نے پاکستان اور بھارت کو ایٹمی تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اندرونی سیاسی فضا میں پولرآئزیشن اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے اور ہمارے سیاسی رہنما جنوب مشرقی ایشیاء کے افق پر منڈلاتے تباہی و بربادی کے مہیب سیاہ بادلوں کو نظر انداز کر کے باہم دست و گریباں ہیں۔ اس منظر نامے میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام 12 ویں سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ تدبر و دانائی سے بھرپور اعلامیہ نہ صرف اہلِ وطن کے لئے ہمت و حوصلے کا پیامبر ہے بلکہ اس خطے میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور پاکستان میں انتشار و عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشوں کے آگے بند باندھنے‘ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کے روز بروز ابتر ہوتے حالات پر ہماری جانب سے عملی اقدامات نیز بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے ضمن میں رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ اعلامیے کے مندرجات پاکستان کے اساسی نظریے سے پھوٹنے والی حبّ الوطنی اور مقبوضہ کشمیر و بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی تکالیف کو اپنا محسوس کرنے کے عکاس ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندو سامراج نے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی اور برطانوی سامراج کی ملی بھگت سے مسلمانوں کی نسل کشی کا جو خونیں بازار گرم کر رکھا ہے‘ اس بارے میں ہمیں سال بھر میں محض ایک دو ایّام منانے کے بجائے دلی جمعی کے ساتھ اپنا اپنا کردار انفرادی اور اجتماعی سطح پر ادا کرنا ہے۔ دستور ہند کے آرٹیکل -35اے میں ترمیم کے بعد اب کشمیر میں بھارتی ہندوئوں کے لیے املاک اور جائیداد کی خرید کی راہ میں رکاوٹ ختم کرائی گئی ہے جبکہ یہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بالکل برعکس اقدام ہے جس کے نتیجے میں کشمیر میں مسلم آبادی کو اقلیت میں بدل دینے اور مسجدوں کی جگہ مندروں کو کھڑا کردینے کا شیطانی منصوبہ روبہ عمل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس نہایت خطرناک صورت حال کا ادراک نہیں کیا جارہا۔روزانہ کی بنیاد پر کشمیر میں دو سے پانچ تک جوانوں کو شہید کیا جارہا ہے‘ بچوں کی بینائی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے گُل کی جارہی ہے‘ جیلوں کو آباد اور جوانوں کو اپاہج بنایا جارہا ہے مگر وطن عزیز میں وسیع پیمانے پر اپنی شہ رگ کے بارے ناواقفیت یا لاتعلقی اور معلومات کے نقص کا معاملہ خون کے آنسو رلاتا ہے۔صحافیوں‘ سفارت کاروں‘ ادیبوں‘ڈرامہ نگاروں‘ استادوں اور سیاست دانوں کو اس ضمن میں اپنا خوب سے خوب تر کردار ادا کرنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ سازی کرنی چاہیے۔ دوسرے کے انتظار کے بجائے خود اقدام کرنا چاہیے۔
بھارت کی تیزی سے بگڑتی اندرونی صورتحال کے بارے میں اعلامیہ میں درج ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے بھارت کے طول و عرض میں برپا اس تحریک نجات کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا جس میں بھارت کے تقریباً ہر بڑے شہر میں لاکھوں لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ ہمیں ہندو راج سے آزادی چاہیے۔ دراصل یہ تحریک اس بنا پر شروع ہوئی کہ مودی کی دہشت گرد حکومت بابری مسجد پر سپریم کورٹ سے من مانا فیصلہ لینے‘کشمیر میں قتل و غارت گری کرنے اور پھر 25کروڑ مسلمانوں پر بھارت میں زندگی تنگ کرنے پر کاربند چلی آرہی ہے۔ آر ایس ایس کے اس نعرے میں اُن کی ذہنیت پوری طرح واضح ہے کہ ’’مسلمانوں کے لیے دو استان … پاکستان یا قبرستان۔‘‘ ہمیں افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں عمومی اور خصوصی سطح پر اس پورے منظر نامے کا بہتر شعور ہونا چاہئے۔ جہاں ہمیں اس معاملے کو سمجھنا ہے‘ وہاں پاکستان کی آزادی کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے اور یہ حقیقت بھی جاننا ہے کہ مضبوط پاکستان ہی‘ بھارت کے اندر مظلوم مسلمانوں کے لیے تحفظ کی ڈھال ہے۔
بنگلہ دیش کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش بھارتی سامراج کے دبائو سے نکلنے اور اپنے اقتدار اعلیٰ کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے مگر وہاں پر عوامی لیگ کی وہ حکومت مسلط ہے جو ہندو سامراج کی آلۂ کار ہے۔ وہ حکومت‘ پاکستان کے تحفظ کے لیے کھڑے رہنے والے آج 80‘ 90سال کے عظیم پاکستانیوں کو پھانسیاں لگارہی ہے اور جیلوں میں موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ پاکستان کے باشعور لوگ اس صورت حال سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔
اعلامیہ کے آخر میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو وطن عزیز کی نظریاتی اساس کی محافظ تحریک قرار دیتے ہوئے اسے منظم و متحرک کرنے والے محسنوں محترم مجید نظامی‘ محترم غلام حیدر وائیں اور ان کے رفقاء کی گرانقدر خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور دعا کی گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے لگائے اس شجر کو اور زیادہ برگ و بار سے سرفراز فرمائے۔ الغرض‘ یہ اعلامیہ پاکستانی قوم کو ایک فکری رہنمائی فراہم کرتا ہے اور وہ راہ عمل تجویز کرتا ہے جس پر گامزن ہو کر ہم اس مملکت کے بارے قائداعظم محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبالؒ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نظریات و تصورات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024