تحریر: مہرعبدالخالق لک
27/12/24
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
میری دادی بختاور لک شاہپوری پنجابی لہجہ میں اکثر بولتی “اس شودی غریباں خاطر پیو آر بے مل مر وجنا تے کج وی نہی بننا” یعنی مسکین کو غریبوں کی خاطر موت تو ملے گی لیکن قدروقیمت نہ ہوگی “بھٹو صاحب کا کہنا “ تاریخ فیصلہ کرے گی” لیکن ایک بات ہے” غریب کی امید ہمیشہ کیلیے ڈوب گءہے” اس سے بڑا سچ خود انکی اپنی زبانیبینظیر نے کہا"چلو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے چند مہینوں میں مر ہی جانا ہے"
26 دسمبر 2007 کی رات جب بے نظیر بھٹو اسلام آباد کے زرداری ہاو¿س پہنچیں تو وہ بہت تھک چکی تھیں لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کا پیغام ان تک پہنچا تھا کہ وہ ایک اہم کام کے لیے ان سے ملنا چاہتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی یہ ملاقات رات ڈیڑھ بجے ہوئی اور بے نظیر کے علاوہ ان کے سلامتی کے مشیر رحمان ملک بھی اس میں شامل تھے۔ندیم تاج نے انھیں بتایا کہ اس دن کوئی انھیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کو اپنے ذرائع سے اتنا یقین تھا کہ وہ خود دیر رات بے نظیر کی اسلام آباد رہائش گاہ پہنچے تھے۔بی بی سی کے اسلام آباد میں سابق نمائندے اوین بینیٹ جونز اپنی کتاب 'دی بھٹو ڈائنیسٹی دی سٹرگل فار پاور ان پاکستان' یعنی 'پاکستان میں طاقت کے لیے جدوجہد میں بھٹو خاندان' میں لکھتے ہیں: 'یہ سنتے ہی بے نظیر کو شبہ ہوا کہ ندیم تاج کہیں ان پر اپنے پروگرام کو منسوخ کرنے کے لیے دباو¿ تو نہیں ڈال رہے ہیں۔ انھوں نے تاج سے کہا اگر آپ ان خودکش بمباروں کے بارے میں جانتے ہیں تو آپ انھیں گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ تاج کا جواب تھا کہ 'یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے ان کے سورسز کا راز افشا ہوجائے گا۔'
اس پر بے نظیر نے کہا کہ آپ میری سکیورٹی میں اضافہ کریں۔ آپ نہ صرف میری بلکہ میرے غریب ورکروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنائ?ں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے لیے اپنی پوری طاقت لگآ دیں گے۔'بے نظیر جب جنرل تاج سے مل رہی تھیں ان کے قاتل ان کے قتل کی حتمی تیاری کر رہے تھے۔
بہت کچھ لکھنے کی خواہش کے باوجود کچھ لکھنے سے رہ ہی جاتا ہے۔ یہ کتاب اسانی سے مل جاتی ہےلیکن پھر بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ محبوب سیاسی لیڈر کی برسی ہو اور اس کی سیاسی جدوجہد کو صفحہ قرطاس پر بمع درد منتقل نہ کیے جائیں پاکستانی سیاست کا ذکر محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام کے بغیر ادھورا ہے۔ جب جب برصغیر کے اس خطے میں جمہوریت اور قربانیوں کا ذکر آئے گا تو بھٹو خاندان کا نام سر فہرست ہو گا۔ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم دختر مشرق بے نظیر بھٹو شہید کی 17 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔دو بار پاکستان کی وزیراعظم بننے والی بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی آمریتوں کا مقابلہ کیا۔
بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی اور جمہوری بصیرت کی حامل شخصیات اس سر زمین پر خال خال ہی پیدا ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے دشمنوں کو دوست بنایا اور پاکستان کی سیاسی الجھنوں کے سلجھاو¿ کے لیے اپنے مخالف کے ساتھ میثاق جمہوریت کر لیا اور یہ سب کچھ اس نے اپنے لیے نہیں کیا کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ جس راستے پر وہ چل پڑی ہے میں بقائ کا ضامن کوئی نہیں ہو گا اور ایسا ہی ہوا اور 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں ان کے علاوہ مزید 20 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ایک نظر ذاتی زندگی پردو بار پاکستان کی وزیراعظم بننے والی بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 میں پیدا ہوئیں انہوں نے اپنی زندگی میں سیاسی مخالفین کے سامنے خاتون ہونے کے باوجود سخت ترین حالات میں اپنی لیڈر شپ کا لوہا منوایا اور آمریتوں کا مقابلہ کیا۔بے نظیر بھٹو نے سیاسی گھرانے میں پرورش پائی، کونوینٹ آف جیزز اینڈ میری اور کراچی گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی میراث کو آگے بڑھایا۔
آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کی منگنی 29جولائی 1987ء کو لندن میں ہوئی، اس خبر کی دنیا کے تقریباً تمام ہی ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور پر تشہیر ہوئی۔
منگنی کی تقریب لندن میں بینظیر بھٹو کی بہن صنم بھٹو کے فلیٹ میں ہوئی، منگنی کے تقریباً پانچ ماہ بعد 18دسمبر 1987ءکو آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کی یادگار شادی کراچی میں ہوئی، نکاح اور شادی کا عوامی استقبالیہ لیاری کے ککری گراﺅنڈ میں ہوا جہاں دولہا دلہن کے قریبی رشتے داروں کے علاوہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
شہید بے نظیر بھٹو عوامی سیاسی رہنما کے ساتھ ایک ذمہ دار ماں بھی تھیں جس نے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم اور تربیت دلانے کے ساتھ عوامی سیاست سے بھی روشناس کرایا جو آج تک بلاول اور آصفہ کی شخصیات میں نکھر کے سامنے نظر آ رہا ہے۔بینظیر بھٹو نے اپنے بچوں کو کھیل کود سے لیکر سیاسی سرگرمیوں تک گود میں بٹھائے رکھا، جب ان کے شوہر آصف علی زرداری کراچی سینٹرل جیل میں قید تھے تو بینظیر وہاں بھی اپنے بچوں کے ہمراہ جایا کرتی تھی، اس عظیم ماں کی تربیت نے بلاول اور آصفہ بھٹو زرداری کو عوام کے درمیان رہکر عوامی سیاست کو پروان چڑھانے میں مدد دی۔