بعض اوقات ایسے معاملات پیش آتے ہیں کہ صورتحال طرفہ تماشا بن کر سامنے آجاتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو دعوے کئے جاتے ہیں، انکے برعکس صورت حال ہوتی ہے ۔ ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘کا محاورہ یاد آجاتا ہے ۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں آج بھی چھ ہزار پانچ سو دیہات میں لوگوں کو بجلی کی سہولت حاصل نہیں اور عوام وہاں اس محرومی کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموشی سے زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس خبر کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بجلی سے محروم دیہات کا تعلق دور دراز علاقوں سے نہیں صرف لاہور کے ضلع کی فہرست میں شامل ہیں ۔یعنی صوبائی دارلحکومت کے قریب واقع ہونے کے باوجود سولہ دیہات میں رہنے والے لوگ اندھیروں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف برقی روشنیوں سے لاہور اور دوسرے علاقے جگمگاتے رہتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ لاہور میں پانی کے فوارے (ایک سے زائد مقامات پر) بھی بجلی سے چلائے جاتے ہیں، جو شام ہوتے ہی رات گئے تک رنگ برنگی روشنیوں سے رقص کرتے ہوئے عوام کو تفریح مہیا کرتے ہیں۔ اسی لاہو ر میں واہگہ سے آنے والی نہرمیں رنگ برنگے فلوٹ جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں، جنہیں برقی روشنیوں سے مزین کر کے عوام کی تفریح کا سامان مہیا کیا جاتا ہے جبکہ لاہور شہر کے باہر ضلع کی حدود میں سولہ دیہات میں بجلی نام کی سہولت موجود نہیں ۔پورے صوبے میں بھاری بجٹ ہونے کے باوجود اگر اس حقیقت کو چراغ تلے اندھیرا ،نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ اس افسوسناک صورت حال میں وفاقی وزیر برائے بجلی و گیس عمر ایوب خان نے ایک بیان میں خوشخبری سنائی ہے کہ پورے ملک کے ہر گائوں اور دیہات میں گیس مہیا کی جائیگی ۔ اس خوشخبری کو سُن کر وہ دل جلے لوگ، جن کے گائوں اور دیہات میں بجلی کی سہولت نہیں، یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وزیر صاحب پہلے بجلی کی سہولت تو ہر گائوں تک مہیا کریں پھر گیس کی سہولت دینے کی خوشخبری سنائیں ۔ ایسا کہنے والے لوگ بالکل حق بجانب ہونگے ۔ المیہ یہ ہے کہ بجلی سے محروم گائوں میں رہنے والوں کی آواز اعلیٰ حکام اور حکمرانوں تک نہیں پہنچتی ۔ اگر آواز پہنچ بھی جائے تو اس کا اثر نہیں ہوتا ۔ کسی کو عوام کی تکالیف اور محرومی کا کوئی احساس نہیں اور وہ ’’سب اچھا‘‘کے بیانات جاری کر کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حیرت اس وقت بھی ہوتی ہے جب حکومتی حلقوں (وزرائ) کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ بجلی سے کاریں اور موٹر سائیکل وغیرہ چلانے کا منصوبہ تیار کیا جائیگا۔ ایک رپورٹ یہ بھی آچکی ہے کہ گزشتہ دَور ِ حکومت میں بجلی کے متعدد اور پے در پے منصوبوں کی وجہ سے پیدا وار اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ متعلقہ وزرات اور محکموں کو بجلی کی ترسیل ایک مسئلہ بن رہی ہے کیوں کہ بجلی کی مکمل پیداوار حاصل کی جانے لگے تو سپلائی لائینز اسکی متحمل نہیں ہو گی۔ یعنی فاضل پیداوار ہو رہی ہے۔ بجلی کی کمی نہیں ہے ،ا سکے باوجود صوبے کے جن دیہات میں بجلی کی سہولت مہیا نہیں کی گئی۔ وہاں یہ سہولت پہنچانے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔ آخر یہ صورتحال کیوں قبول ِ برداشت کی جارہی ہے ۔ اگر اوسطاًایک گائوں یا دیہات میں آبادی کا تناسب چار سے پانچ ہزار نفوس رہتے ہوں تو لاہور جیسے ترقی یافتہ اور مراعات یافتہ ضلع میں آج اکیسویں صدی میں بھی سولہ دیہات کے لاکھوں لوگ ا س سہولت سے محروم اندھیروں میں زندگی بسر کرنے پر کیونکر مجبور ہیں!اسکی ذمے داری کس پر عائد کی جائیگی؟ کیا یہ مجرمانہ غفلت نہیں ہے۔ محترم قارئین!ابھی تک صرف لاہور ضلع اور اس میں سولہ دیہات کے لوگوں کو اندھیروں میں زندگی بسر کرنے کا المیہ بیان کیا گیا ہے ۔ پنجاب کے دیگر اضلاع میں جو صور ت حال مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں سامنے آئی ہے ، وہ اس سے بھی زیادہ افسوسناک اورحیرت انگیز ہے۔ مثال کے طور پر ضلع بہاول نگر زرعی اور معاشی حوالے سے اہمیت رکھتا ہے لیکن وہاں 1239دیہات میں لوگوں کو ابھی تک بجلی کی سہولت میسّر نہیں۔ ضلع مظفر گڑھ سیاسی لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے لیکن سیاستدانوں کی غفلت ، بے حسی اور مفاداتی پالیسیوں کے باعث وہاں 968دیہات اندھیروں میں ڈوبے چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح فیصل آباد میں 357، ژ لیّہ میں 648، بھکر 195، جام پور 168 ، لودھراں 154، بھکر 195، ساہیوال 176اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 78دیہات اس سہولت سے محروم ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے ضلع میانوالی میں بھی بجلی سے محروم دیہات کی تعداد 67ہے۔ آخر اُن کا قصور کیا ہے؟ایک اطلاع کے مطابق حکومت نے 32ارب روپے کے اخراجات سے مختلف علاقوں میں سولر پینل سسٹم شروع کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے شاید بجلی کی سہولت سے محروم لوگوں کی قسمت ’’چمک اٹھے ‘‘ اور بعض دیہات ’’روشن‘‘ ہو جائیں۔ ورنہ یہی کہنا پڑے گا اور کہا جاتا رہے گا کہ چراغ تلے اندھیرا۔ اللہ کرے کہ حکمرانوں او ر منتخب نمائندوں کوہوش آجائے اور وہ ساڑھے چھ ہزا ر دیہات میں رہنے والے عوام کو اندھیروں سے نکالنے کا کارنامہ دوہزار بیس میں انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024