پاکستان میں آئین کی بالادستی کی راہ میں ریاست کے اندر ریاست کا وجود سب سے بڑی رکاوٹ ہے، قائداعظم اس کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔ یہ اندرونی یا متوازی ریاست کبھی آئین اور آئینی اداروں کو بوٹوں سے ٹھکرا کر ملک پر براہِ راست غلبہ حاصل کر لیتی ہے اور جب حالات کی مجبوری یا اپنے آٹھ، دس اور گیارہ سالہ اقتدار کی مہلک اور ملک توڑ دینے یا اِسے غیروں کا غلام بنا دینے والی پالیسیوں کی وجہ سے بدنام ہو کر پسِ پردہ چلی جاتی ہے، تو بھی اس کے اثر و رسوخ میں کمی نہیں آتی پیچھے بیٹھ کر تاریں ہلاتی ہے، حکومت و اقتدار کو ترک کر کے بھی مقتدر قوت بنی رہتی ہے، آج کی صورتحال بھی یہ ہے دفاع اور خارجہ امور کے فیصلے اِس نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔ اِس امر نے آئین کی بالادستی کے ہدف کو کبھی پورا نہیں ہونے دیا اور جمہوریت قائم ہو کر بھی لولی لنگڑی رہتی ہے۔ سبب اِس کا دوسرے امور کے علاوہ ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی ہے۔ پاکستان کی چونسٹھ سالہ تاریخ اِس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ لمحہِ موجود کا بھی یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صدرِ پاکستان کے ہاتھوں حکمران جماعت کی سربراہی اور یوں وزیراعظم کو ذاتی مطیع بنا کر رکھنے کے عمل نے جہاں پارلیمانی جمہوریت کے چاند کو داغدار کر رکھا ہے۔ وہیں اِس ناقص طرزِ حکمرانی اور آئین مخالف رویے نے ریاست کے اندر ریاست کی بیماری کو تقویت بہم پہنچا رکھی ہے۔ وزیراعظم اگر حقیقی معنی میں طاقتور ہو جیسا کہ آئین تقاضا کرتا ہے اور صدرِ مملکت کا عہدہ وفاق کی محترم علامت بن کر رہے تو وہ جنہیں غیر آئینی مقتدر قوتیں کہا جاتا ہے اُنہیں کمزور کرنے اور ملک کو صحیح معنوں میں آئینی و جمہوری بنانے کی راہ ہموار ہوتی ہے یہ وہ منزل ہے جسے حاصل کرنا باقی ہے۔
کرپشن دوسرا بڑا روگ ہے جس نے ہمارے جمہوری چہرے کو شفاف اور چمکدار نہیں بننے دیا۔ اِس میں شک نہیں کہ اِس روگ نے دوسرے اور طاقتور ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن جب حکمران سیاستدانوں کے بارے میں ایک سے بڑھ کر دوسرا سکینڈل سامنے آنے لگے اور ملک میں احتساب کا کوئی ایسا ادارہ یا نظام وجود میں نہ ہو جو بے لاگ اور منصفانہ طریقے سے کرپشن میں ملوث بڑی اور چھوٹی مچھلیوں کو تالاب سے نکال کر پھینک دے اُس وقت تک ریاست کے اندر ریاست کو سیاستدانوں کو بدنام کرنے اور اِنہیں اپنا آلہ کار بنانے کا موقع ملتا رہے گا۔ عوام کی نظروں میں بھی منتخب سیاستدانوں کو وہ مقام حاصل نہ ہو پائے گا جو جمہوریت کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کیلئے ضروری بنیاد فراہم کرتا ہے لہٰذا جہاں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے انیسویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ آئین کو اصل حالت میں بحال اور نافذ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے وہیں ضروری ہے کہ اِسی طرح کے اتفاق رائے کو بروئے کار لاتے ہوئے احتساب کے ایسے بِل کو منظور کرے اور ادارے کو وجود میں لائے جس کی کارروائیوں سے سیاسی انتقام کی بو نہ آتی ہو بلکہ وہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے مجرموں کو بے نقاب اور ان کی سرکوبی کرنے والا ہو۔ اِس کے بغیر جمہوریت دشمن اور آئین مخالف قوتوں کو من مانی کرنے سے روکا نہیں جا سکتا، نہ عوام کے دلوں میں احترام کا وہ جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے جس سے کام لیکر وہ اِن اداروں اور منتخب حکومتوں کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہو جائیں۔ (ختم شد)
کرپشن دوسرا بڑا روگ ہے جس نے ہمارے جمہوری چہرے کو شفاف اور چمکدار نہیں بننے دیا۔ اِس میں شک نہیں کہ اِس روگ نے دوسرے اور طاقتور ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن جب حکمران سیاستدانوں کے بارے میں ایک سے بڑھ کر دوسرا سکینڈل سامنے آنے لگے اور ملک میں احتساب کا کوئی ایسا ادارہ یا نظام وجود میں نہ ہو جو بے لاگ اور منصفانہ طریقے سے کرپشن میں ملوث بڑی اور چھوٹی مچھلیوں کو تالاب سے نکال کر پھینک دے اُس وقت تک ریاست کے اندر ریاست کو سیاستدانوں کو بدنام کرنے اور اِنہیں اپنا آلہ کار بنانے کا موقع ملتا رہے گا۔ عوام کی نظروں میں بھی منتخب سیاستدانوں کو وہ مقام حاصل نہ ہو پائے گا جو جمہوریت کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کیلئے ضروری بنیاد فراہم کرتا ہے لہٰذا جہاں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے انیسویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ آئین کو اصل حالت میں بحال اور نافذ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے وہیں ضروری ہے کہ اِسی طرح کے اتفاق رائے کو بروئے کار لاتے ہوئے احتساب کے ایسے بِل کو منظور کرے اور ادارے کو وجود میں لائے جس کی کارروائیوں سے سیاسی انتقام کی بو نہ آتی ہو بلکہ وہ حقیقی معنوں میں کرپشن کے مجرموں کو بے نقاب اور ان کی سرکوبی کرنے والا ہو۔ اِس کے بغیر جمہوریت دشمن اور آئین مخالف قوتوں کو من مانی کرنے سے روکا نہیں جا سکتا، نہ عوام کے دلوں میں احترام کا وہ جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے جس سے کام لیکر وہ اِن اداروں اور منتخب حکومتوں کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہو جائیں۔ (ختم شد)