آج اقوام عالم کے بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی مسائل و مشکلات کے ضمن میں باہمی وابستگی نے ایک دوسرے پر انحصار اور وسیع تر عالمی تعاون کی ضرورت کوبڑھا دیا ہے تاکہ معاشی استحکام و ترقی، پائیدار امن و سلامتی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کا عمل مشترکہ طور پر آگے بڑھایا جا سکے چاہے وہ امن، سلامتی اور ترقی کیلئے خطرہ بننے والی بین الملکی دہشتگردی کا بھوت ہو، موسمیاتی تبدیلیوں سے وقوع پذیر ہونے والی سماجی اور معاشی اثرات ہوں، ہماری ترقی کی راہ میں حائل توانائی بحران ہو، یا غربت کا خاتمہ ہو، یہ کسی ایک ملک کے مسائل نہیں بلکہ بے شمارممالک ان مسائل کی زد میں ہیں اسی طرح ہماری ترقیاتی ترجیحات اور 2030ء تک پائیدار ترقی کے متعین مقاصد پائیدار ترقی کے اہداف 2030 ء کے مقررہ اہداف کا حصول بھی ہماری حکومتوں اور پارلیمانی سطح اور تعاون پر منحصر ہے۔
تاہم، بین الحکومتی ادارے، جن پر اقوام عالم نے باہمی تعاون کو فروغ دینے کیلئے روایتی طور پرانحصار کیا ہے کا جمود بڑھتا جا رہا ہے جس سے عالمی سطح پر گورننس کا خلا پیدا ہوا ہے اس سلسلے میں پارلیمان بالخصوص اراکین پارلیمنٹ کا کردار عالمی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس بناء پر بین الاقوامی طرز حکمرانی اور سفارتکاری کیلئے مرکزی اہمیت کی حامل ہو چکی ہے اراکین پارلیمنٹ مقامی ترجیحات و ضروریات کو عالمی تقاضوں سے جوڑ کر امن خوشحالی اور تنازعات کے تصفیے کے سلسلے میں بین الاقوامی کوششوں اور قومی لائحہ عمل میں ہم آہنگی کے ذریعے مشترکہ اہداف کے ضمن بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ اگرچہ کئی کئی ملکی بین الپارلیمانی فورمز موجود ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی فورم ایسا نہیں ہے جو مشترکہ اور اہم عالمی و علاقائی مسائل کے حل کیلئے اراکین پارلیمان کی انفرادی خوبیوں اور صلاحیتوں پر زور دیتا ہو۔
گزشتہ سال جب سے میں نے بطور چیئرمین سینٹ ذمہ داریاں سنبھالی تو مجھے ان حقائق کا ادراک ہوا اس لئے میں نے مثبت پارلیمانی سفارتکاری کوفروغ دینے کیلئے پاکستان سینٹ کی سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے بھرپور کوششیں کی ہیں اس ضمن میں سب سے بڑی پیشرفت اس وقت ہوئی جب ہم نے گوادر میں 28 تا 30 اکتوبر کو ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کمیٹی برائے سیاسی امور اور خصوصی کمیٹی برائے تخلیق ایشیائی پارلیمان کے اجلاسوں کی میزبانی کی ان اجلاسوں میں ایشیائ، یورپ، افریقہ کے کئی ملکوں کے اراکین پارلیمنٹ اور بین الپارلیمانی یونین کے سیکرٹری جنرل نے حصہ لیا جو کہ ہمارے ملک کیلئے سفارتی، سٹریٹجک اور علاقائی و سیاسی لحاظ سے گیم چینجر ثابت ہوگا ایسی کاوشوں کو جاری رکھنے کیلئے پاکستان سینٹ کو اس سال اے پی اے کی صدارت کا موقع ملے گا۔
اسی وژن کو آگے لے جاتے ہوئے میں نے دنیا بھر سے انفرادی پارلیمنٹیرنزکا بڑا فورم بنانے کا سوچا ہے جس کا نام بین الاقوامی پارلیمنٹیرنز کانگریس (آئی پی سی) ہے، یہ فورم سینٹ آف پاکستان قائم کرے گا جس کا بنیادی مقصد براج اور خطوں میں سیاسی گفت وشنید کے ذریعے تعاون، افہام و تفہیم اور باہمی عزت و احترام کو فروغ دینا ہوگا۔
فورم کا مستقل ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں بنانے کا سوچا گیا ہے جس کا مقصد مختلف ممالک کے پارلیمنٹیرینز کو قریب لانا ہے جس میں نہ صرف علاقائی اور قومی نمائندے ہوں، بلکہ عالمی پارلیمنٹیرینز بھی شامل ہوں اس کے ساتھ ساتھ یہ فورم پوری انسانیت کی نمائندہ ہو اور یہ گفت و شنید اور پارلیمانی تجربات کے ذریعے امن ، خوشحالی اور ترقی کے خیالات پر عملدرآمد کرنے کے لئے پرعزم ہو۔
آئی پی سی کے تصور کی بنیاد اس کے بنیادی اصول ہیں جو کہ مل جل کر ذمہ داری ادا کرنا مل کے کام کرنا تاکہ بنیادی انسانی جنسی مساوات، قانون پر عملدرآمد، معاشی، معاشرتی ترقی اور تمام لوگوں کیلئے بہتر طرز حیات کو تحفظ اور فروغ دیا جا سکے۔ سیمینارز کانفرنسیں اور فورم تجارت، معیشت اور صنعت کے اہم شعبے میں کثیر الطراف شراکت داری کے لئے کام کریں گے۔
اراکین پارلیمانی کو مزید بااختیار بنانے، انہیں قابل بنانے اور ان میں روابط پیدا کرنے کے ذریعے تاکہ وہ سوچیں اور مسائل کے حل کیلئے علمی سطح کا طرز عمل اپنائیں کانگریس جغرافیائی بندشوں کو توڑنے میں اہم کردار ادا کریگی جس سے ایسے عام مسائل جن کو حل کرنے کیلئے ٹھوس عملدرآمد اور سیاسی اتفاق درکار ہوں، حل ہو پائیں گے یہ فورم انفرادی طور پر بھی پارلیمنٹیرنز کو بل واسطہ اور بلاواسطہ طور پر عالمی سطح کے ایسی کارروائیوں میں شرکت کا موقع دے گا جو کہ ان لوگوں سے وابستہ ہوں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اسی جذبے کے ساتھ ایک روابط سے بھرپور اور اراداری طور پر تشکیل کردہ اس پلیٹ فارم تک موجودہ اراکین پارلیمان کی رسائی کے ذریعے آئی پی سی اپنی طرف سے ایک ایسا فورم فراہم کرے جس سے کہ عوام کو سنا جائے اور عالمی طور پر ان کو نمائندگی حاصل ہو سکے۔
شمولیت اوربرابری کے رہنما اصولوں پر مشتمل کانگریس اراکین پارلیمان کو عام مسائل بشمول جغرافیائی اور سیاسی جیواسٹریٹجک اور سماجی مسائل پر بحث کرنے اور ان کے تخلیقی نوعیت کے حل نکالنے میں معاونت فراہم کرتی ہے یہ میرا ایمان کامل ہے کہ ایک مضبوط تحریک اور پارلیمان بہتر طرز حکمرانی اور پائیدار ترقی کا عالمی ایجنڈا 2030ء کو یقینی بنانے کیلئے بہترین ضامن ہے لہذا پارلیمانی استحکام اور صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات آئی پی سی کے اہم ترین مقاصد میں شامل ہیں اس حوالے سے صلاحیت میں اضافے اور علم کے تبادلے کے ذریعے کانگریس روابط او رمطابقت پیدا کرنے کے اقدامات کے پارلیمان کو مزید مستحکم بنائے گی۔
امن ، سلامتی اور ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے کا راستہ کٹھن ہے لیکن برحال یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً کٹھن راستے ہی خوبصورت ترین منازل تک رسائی کو ممکن بناتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آئی پی سی کے پلیٹ فارم سے ٹھوس اور مستحکم کوششوں کے ذریعے اس دنیا کو پرامن بنانے اور روابط کو مربوط بنانے کے ذریعے ہم یہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جس میں نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی بہت کچھ شامل ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024