جمعرات ‘ 27 ؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 29 ؍ اگست 2019 ء

وزیر اعظم سیکرٹریٹ 41 لاکھ 13 ہزار کا نادہندہ نکلا
حیرت کی بات ہے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کفایت شعاری کی بھرپور مہم کے باوجود وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں اتنی ’’بتیاں‘‘ کیوں جلائی جاتی ہیں جن کا اتنا زیادہ بل آیا ہے۔ اب تو آئیسکو والوں نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے یہ بل فوری جمع کرانے کا نوٹس دیا ہے۔ جس کے بعد عام طور پر بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔ مگر وزیر اعظم سیکرٹریٹ والے پریشان نہ ہوں، ایسا صرف چھوٹے موٹے بجلی نادہندگان کے ساتھ ہوتا جو گلی محلوں میں رہتے ہیں۔ ان بے چاروں کی ناصرف بجلی کاٹی جاتی ہے بلکہ ان کے میٹر بھی واپڈا والے اُتار کر لے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایسا کرنے کے مجاز نہیں ہوتے کیونکہ میٹر مکان مالک کا ذاتی ہوتا ہے۔ مگر بجلی والے یہ بھی لے جا کر اس غریب کو دوہرے صدمے سے دوچار کر دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے آئیسکو والے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا کیا حال کرتے ہیں۔ ویسے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں اتنا کمال تو ضرور ہے کہ وہ اپنی طرف کٹر اور پلاس لے کر بڑھنے والے ہاتھ کئی فرلانگ دور ہی جام کر سکتا ہے۔ تاہم پھر بھی عوام کے دل پشوری کرنے کے لیے وزیر اعظم اتنا بل بننے پر انکوائری کمشن بنا سکتے ہیں جو جائزہ لے گا کہ اتنا بل کیسے آیا۔ یہ کام سال دو سال میں اطمینان کے ساتھ مکمل ہو سکتا ہے۔ اس دوران سٹے آرڈ لے کر گلشن کا کاروبار جاری رکھا جا سکتا ہے۔ سو زیادہ فکر والی کوئی بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں…؎
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
٭٭٭٭٭
سمندری طوفانوں کو جوہری بم مار کر روکا جائے۔ ٹرمپ کی نئی نرالی منطق
ویسے تو امریکہ کو نجانے کون کون سے طوفانوں کا سامنا رہتا ہے۔ مگر صدر ٹرمپ کو اگر خطرہ ہے تو سمندری طوفانوں سے ہے۔ شاید وہ بچپن میں کسی خوفناک سمندری طوفان سے آشنا ہوئے ہیں اور اس کے بعد اسی کے خوف میں مبتلا ہیں۔ یہ خالصتاً ایک نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اب انہوں نے ان سمندری طوفانوں سے نمٹنے کے لیے یہ نرالی منطق سوچی ہے کہ ایسے طوفانوں کو امریکہ پر حملہ آور ہونے سے قبل ہی ایٹم بم مار کر سمندر میں ہی ختم کر دیا جائے۔ ان کی اس تجویز پر ان کی تقریر سننے والے تمام ماہرین حرب و نیوکلیائی امور کی تو ایک لمحے سٹی گم ہو گئی مگر جلد ہی انہوں نے کمال مہارت سے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے صدر کے ارشاد پر سعادت مند بچوں کی طرح ’’اچھا جی‘‘ کہہ کر گردن ہلائی۔ ایسی ناممکن باتیں نجانے کیوں صرف اور صرف امریکی صدر ٹرمپ کو ہی سوجھتی ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ایسا ممکن نہیں مگر امریکی صدر نے سمندروں کو بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی سمجھ لیا ہے اور وہ انہیں امریکہ پرحملہ آور ہونے کی سزا دے کر سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ ویسے اگر امریکی صدر خود بھی غور کریں وہ کہتے ہیں ناں…؎
آپ خود اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
خود امریکہ دنیا میں کہاں کہاں طوفان بن کر بستیوں کی بستیاں اجاڑتا پھرتا ہے۔ انسانی لاشوں کے انبار پر سیاست کرتا پھرتا ہے۔ اگر سمندری طوفان کے ساتھ ساتھ امریکہ اپنی اس منفی طوفانی سیاست کا بھی علاج کرے تو انسانیت کو زیادہ فائدہ ہو گا۔
٭٭٭٭٭
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا خاموش رہنے کی شرط پر رہا ہونے سے انکار
اس وقت مقبوضہ وادی کی جو صورتحال ہے اس میں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا قید میں رہنا ہی ان کے لیے ضروری ہے۔ یہ وہ ننگ وطن لوگ ہیں جو بھارت کی غلامی پر ہر قیمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے خون اور مستقبل کے سوداگروں کی اولاد ہیں اور خود بھی بہت بڑے سودا گر ہیں۔ انہیں ازخود حکومت نے حفاظتی تحویل میں لیا ہوا ہے کہ اگر یہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے ہتھے چڑھ گئے تو وہ اس منسوخی کا سارا غصہ ان پر نکالیں گے جو ہندوستان سے الحاق کے صدقے واری جاتے پھرتے تھے اور غدار ابن غدار فاروق عبداللہ تو آج بھی بھارت میں فخر سے خود کو محب وطن بھارتی ہندوستانی شہری قرار دیتا پھرتا تھا ۔ کہیں بھجن گا کر اور کہیں جے ہند کے نعرے لگا کر ہندوستانیوں کو خوش کرکے اپنی وفاداری ثابت کرتا پھرتا تھا۔ قربان جائیے قائد اعظم کی بصیرت پر جنہوں نے کہا تھا ’’آزادی کی مخالفت کرنے والوں کی باقی زندگی خود کو ہندوستان کا وفادار ثابت کرنے میں گزر جائے گی۔ سو اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھلا کیا بولنا ہے۔ ان کی بولتی تو عوام کے ردعمل کے خوف سے بند ہو چکی ہے۔ اب تو انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہیں۔ ذرا حالات بدلے تو کشمیری عوام اپنی غلامی کا بدلہ ان سے خود لیں گے ۔ بولنا اب ان کے مقدر میں رہا ہی نہیں یہ خاموش رہنے کا ڈرامہ بھارت رچا رہا ہے تاکہ عوام میں ان کی تھوڑی بہت عزت رہے اور بوقت ضرورت ان کو کام میں لائے ۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں گردوں کی خرید و فروخت میں ملوث 5 افراد گرفتار
خبر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ظالم لوگ اپنا کاروبار اس طرح چلاتے ہیںجیسے مرغیوں کی خرید و فروخت کر رہے ہوں۔ اس بار اس بدبخت گردہ فروش گروہ کے کارند ے پاکستان کے دل سے گرفتار ہوئے ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ دل اور گردے کا باہمی رشتہ اس کاروبار میں بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی ایسے کئی گروہ لاہور کے علاوہ مختلف شہروں سے بھی پکڑے گئے۔ مگر وہی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ چند روز شور اٹھا۔ بیان بازی ہوئی حکومت نے خوب سنائی سول سوسائٹی بھی خوب برسی مگر اس کے بعد پھر وہی خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی کے پردے میں یہ کاروبار پھر چالو ہو گیا۔ یہ کاروبار کرنے والے بااثر ہسپتال مالکان اور ایجنٹ جانتے ہیں کہ کہاں کتنا مال پانی لگانا ہے اور کتنا مال پانی بمعہ سود کے واپس وصول کرنا ہے۔ اب کی بار میوہسپتال سے اس گردہ کی گرفتاری بتا رہی ہے کہ اوپر سے سکون کے باوجود اندر خانہ یہ مکروہ گروہ اپنا بزنس نہایت اطمینان سے چلا رہے ہیں۔ اگر حکومت اعلانات اور بیانات کی بجائے ایسے افراد کو جو اس مکروہ کاروبار سے باز نہیں آتے ان کے ایک ایک گردے نکالے کر غریب بیمار مریضوں کو عطیہ کر دے تو کئی لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں ، صرف گردے ہی کیا ایک آنکھ بھی نکال کر عطیہ کر د یں تو حکومت کو دوہرا ثواب ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭