خودمختارکشمیر بھارت کی اور مودی کی دوسری دفاعی لائن ہے ۔چناب فارمولے سے خودمختار کشمیر تک سازشوں کی طویل داستان ہے شاطر ہم رنگ زمین جال پھیلائے بیٹھے رہے آج تک تو ناکام و نامراد رہے۔ قوموں کی زندگی میں اصولی موقف پر ثابت قدمی اور جہدمسلسل کوبنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے جہاں قومی موقف غیر واضح،ثابت قدمی ڈھل مل، اورجدوجہد سے فرار ہو، وہاں پر نتیجہ وہی نکلتا ہے جو فلسطین میں اسرائیل اور پاکستان میں کشمیر کا منظرنامہ عیاں کررہا ہے۔ مدتوں سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ ہم کشمیر پرعالمی وعدوں اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابندہیں اوردوسری طرف کبھی آؤٹ آف باکس،کبھی دوطرفہ بات چیت اورکبھی تیسرے راستے کی بات کی جاتی ہے ایسا کوئی بھی موقف درحقیقت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی اورکم سے کم نرم الفاظ میں کشمیریوں کے موقف سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ 1989ء میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں جدوجہد آزادی کے زبردست ابھارنے جنم لیا۔"کشمیربنے گا پاکستان کے ساتھ ساتھ "خودمختارکشمیر"کا راگ الاپاجانے لگا ۔
خودمختارکشمیر کا نعرہ بذات خود اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی نفی تھی، کیونکہ ان قراردادوں میں صرف دو راستوں میں سے ایک راستہ منتخب کرنے کیلئے استصواب رائے کا وعدہ تھا کہ کشمیری پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کو چننے کا حق رکھتے ہیں اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں اس کی ضمانت دی تھی لیکن پاکستان کے پرنٹ میڈیا میں مخصوص شتر بے مہار’ مادر پدر آزاد لابی نے 'خودمختارکشمیر'کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا اور اپنی سرپرستی کا مستحق قراردے دیا یوں اس نئے نعرے کو پرکشش بنانے کیلئے دلائل سازی کا کام شروع ہوا نومبر 1989ء لاہورمیں پریس کانفرنس کے دوران ایک نام نہاد ترقی پسند دانشور نے مرحوم قاضی حسین احمد سے سوال کیا"آخر آپ خود مختار کشمیر سے بدکتے کیوں ہیں؟"قاضی صاحب نے صحافی کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا"خود مختارکشمیر،بھارت کی سکینڈ ڈیفنس لائن ہے"پھر کہا:"میں تفصیل بتانے کے بجائے آپ لوگوں پر چھوڑتاہوں کہ آپ میرے اس جملے پر سوچیں اوردیانت داری سے نتیجہ اخذکریں"اورساتھ ہی پریس کانفرنس ختم ہوگئی۔سب سے پہلے تو بھارت خودمختارکشمیر مطالبے کی بالواسطہ سرپرستی کرکے اقوام متحدہ قراداروں میں "دوآپشن" کے شکنجے سے نکلنا چاہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر خدا نخواستہ خودمختارکشمیر بن جائے تو وہ کشمیر کسی صورت بھوٹان، نیپال، مالدیپ اوربڑی حدتک بنگلا دیش سے زیادہ آزاد وخودمختارنہ ہوگا۔اپنی ہر پالیسی اورمعاشی و تزویراتی زندگی کے حوالے سے بھارتی استبداد کے رحم وکرم پر ہوگاخود بھارت کے ہندوشہری توپھر بھی کسی حد تک آزادی کے مستحق سمجھے جائینگے، لیکن یہ "مسلم ریاست"اس آزادی کی مستحق تصورنہیں کی جائیگی۔ جس طرح بنگلا دیش کی نام نہاد خودمختاری ہرلمحہ'نئی دہلی میں بیٹھے بھارتی ایجنسی'را'کے بنگلا دیش ڈیسک کے ڈائریکٹر کی مرہون منت ہے، ویسا ہی ایک ڈائریکٹر جموں وکشمیر کیلئے خدمات دینے بیٹھا ہوگا اس طرح ایک پھندے سے نکل کر دوسرے پھندے میں پھنسنے والا معاملہ ہوگا۔
پاکستان، جس نے 1947ء سے جان و مال، اور اپنے وجود کو کشمیری بھائیوں کی آزادی کیلئے وقف کررکھا ہے، وہ پاکستان،لازمی طورپر ایک"غیردوستانہ ہمسایہ ریاست" سے دوچارہوگا،جس طرح کہ کبھی افغانستان اوراکثربنگلا دیش جیسے حالات تشکیل پائیں گے۔ خودمختارکشمیر کی معاشی حالت کو بہتربنانے اورٹورازم کوبڑھاوادینے کیلئے امریکہ ویورپ اور اسرائیل وبھارت بڑی بڑی معاشی پیش کشیں لے کر آئیں گے۔یہ وہ انہی کی حکمت عملی کے مطابق آگے بڑھے گا معاشی طورپر پاکستان کی گردن دبوچنے کیلئے پانی کے ہتھیارکومنہ مانگے داموں استعمال کریگا۔
جنرل پرویزمشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر out of box حل کی بات کرکے پاکستان کے اصولی موقف کو بے وقعت کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن نہ مشرف رہے نہ ان کے احمقانہ فارمولے ، ان پر مقدمہْ اس بنیاد پر چلنا چاہیے کہ موصوف نے کس طرح قراردادوں کو ایک طرف پھینکنے کی جرات کی؟دوسرایہ کہ لائن آف کنٹرول پر باڑلگانے کی اجازت دیکر عملاً اسے بین الاقوامی سرحد کیوں بنایا گیا؟ بھٹو مرحوم نے جنگی قیدیوں کی رہائی اور اپنا زیر قبضہ علاقہ چھڑانے کیلئے شملہ معاہدے میں کشمیر کو مجبوراً دوطرفہ تنازعہ مان لیا ہوگا لیکن جناب نوازشریف تو بیگانوں کی شادی میں عبداللہ دیوانے کا کردار ادا کرتے 'اعلان لاہور'میں ازخود سب کچھ ہندو بنیا کی گود میں ڈال رہے تھے۔ آج صورت احوال یہ ہے کہ بھارتی میڈیا اوربھارتی پالیسیوں کے پاکستانی دلال،یہاں پر کھل کر یہی راگ الاپ رہے ہیں ایک شردھالونے تو کشمیر کے سارے مقدمے کو ملیا میٹ کرنے کیلئے یہاں تک لکھا ہے۔کوئی سمجھے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں پھر’’ سے زندگی ڈالی جاسکتی ہے،تووہ احمقوں کی جنت میں نہ رہے۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ تنازع کشمیر کے حوالے سے ‘‘چناب فارمولے ’’ کی خبر شائع کرنے پر متحدہ پاکستان کے تمام نامی گرامی ایڈیٹر وں نے مشترکہ اداریہ تحریر کرکے شائع کیا تھا جس میں جناب فیض احمد فیض پیش پیش تھے اور ‘‘سول اینڈ ملٹری گزٹ’’ جیسا تاریخی اخبار بے موت مارا گیا تھا ایک طرف کشمیر پر قومی حساسیت کا یہ عالم تھا اور آج بھارتی مال پر پلنے والے شردھالو برسر عام خود مختار کشمیر کے راگ ملہار الاپ رہے ہیں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے کہ جناب مجید نظامی جنت آشیانی ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کشمیر تنازع پر جو پسپائی اعلان تاشقند سے شروع ہوئی اور آج اس مقام پر پہنچ گئی ہے یا پہنچائی جارہی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو اغواکرکے بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024