شان الحق حقی… ایک منفرد غزل گوشاعر
’’بڑی مشکل سے سیکھا ہے تمناؤں نے خوں ہونا‘‘
ڈاکٹر تنویر حسین
جس بڑے آدمی کی تحریریں نظر سے گزری ہوں اور شعر و ادب میں جس ہستی کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہو اس سے ملاقات بھی ایک اہم ادبی واقعے میں شمار ہوتی ہے۔ میں نے شان الحق حقی کی مختلف اصناف پر لاجواب تحریریں پڑھی ہیں۔ ان کی تحریر سے یہ مترشح ہوا کہ شان الحق حقی ہم سب کے محسن ہیں۔ میں اتنی بلند قامت علمی وادبی شخصیت کی ملاقات سے محروم رہ گیا گذشتہ دنوں ان کے فرزند شایان حقی سے ملاقات ہوئی تو میں نے والد صاحب کے لئے برسوں سے جمع کیا ہوا ادب و احترام بیٹے کی نذر کردیا پھر میں نے نہایت احترام کے ساتھ اپنی کتاب پیش کی۔ شایان حقی پائلٹ ہیں اور ایک ائر لائن سے وابستہ ہیں جب میں نے کہا آپ کراچی میں رہتے ہیں تو کہنے لگے ’’ بھئی ! میں تو لاہور میں رہتا ہوں۔‘‘ شایان حقی کی باتوں سے ان کے ادبی ذوق کا علم ہوا۔ شایان حقی بہت نفیس اور خوش اخلاق انسان ہیں۔ میں مضمون میں حقی صاحب کی شاعری پر اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں۔ حقی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ادبی کارناموں کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ انہوں نے شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید، لسانیات، لغت تگاری اور مزاح نگاری کے حوالے سے خود کومنوایا۔ حقی صاحب بہت سی زبانیں جانتے تھے۔ خطاطی و خوش نویسی پر بھی انہیں ملکہ حاصل تھا۔ علاوہ ازیں مشرقی و مغربی شعراء کے کلام منظوم تراجم بھی کئے۔
لغت نویسی، لسانیت اور تحقیق وتنقید کے شعبوں میں حقی صاحب نے کا رہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ اس کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے لیکن ان کی شاعری پر بات کم کم سنائی دیتی ہے۔ میں نے حقی صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا تو حیران رہ گیا کہ ان کے ہاں موضوعات بھی اچھوتے ہیں اور ان کا اسلوب بھی انفرادی ہے۔
چشم نرگس ہی سے آخر پیار کیوں
اہلِ گلشن ہم نہیں بیمار کیا
……
یقیں کب تھا کہ لکھا تھا مقدر ہی میں یوں ہونا
بڑی مشکل سے سیکھا ہے تمناؤں نے خوں ہونا
وہ خالی سی نظر میں رفتہ رفتہ بات سی پیدا
وہ سادہ سی ادا کا دھیرے دھیرے پُرفسوں ہونا
گلہ نہیں مجھے سیلاب سے تباہی کا
مرامکان ہی کچا تھا اور نشیب میں تھا
جواب صاف نمایاں جبیں سے تھا اس کی
ابھی تو شوق کا نامہ ہماری جیب میں تھا
اردو غزل کی روایت اتنی مضبوط ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ شعراء نے کیسے کیسے مضامین باندھ دیئے پھر کہنے کا ڈھنگ ایسا کہ ’’وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘‘ والی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اردو غزل کا حسن دامن دل کھینچتا ہے۔ اردو غزل سے قبل فارسی غزل کی ایک عظیم روایت موجودتھی۔ متاثرین میں آغا باباذخانی، عرفی، نظیری، ابوطالب کلیم ، طالب آملی، بیدل کا کلام دیکھئے۔ نزاکت خیال، حسن لطافت اور حسن بیان کے علاوہ نئے نئے مضامین حیرتوں کا سامان پیدا کرتے چلے جائیں گے۔ جب غز ل کی روایت اردو زبان میں منتقل ہوئی تو حاتم و آبرو، میروسودا، انشاومصحفی، ناسخ و آتش اور ذوق و غالب جیسے با کمال شعراء نے اس روایت کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ ہر لحاظ سے اسے انتہائی مضبوط اور شاندار بنا دیا۔ شعر صرف کلام موزوں اور قافیہ بندی کا نام نہیں، اس میں کوئی اورچیز بھی ہونی چاہئے۔ یہ اور چیز شعریت ہوتی ہے۔ شان الحق حقی کے مذکورہ اشعار آپ نے ملاحظہ فرمائے۔ ان اشعار میں ہمیں اردو غزل کی روایت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان اشعار میں ہر لفظ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑا نظر آتا ہے۔ مذکورہ اشعار پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حقی صاحب قادر الکلام شاعر ہیں۔ آج کی غزل میں صحافتی انداز در آیا ہے۔ غزل اور حالات حارہ پر مبنی کالم میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
حسن و عشق غزل کا بہت بڑا موضوع ہے۔ یہ غزل کی روایت بھی ہے ، معاملات حسن و عشق کے مضامین کم و بیش ہر غزل گو شاعر کے ہاں ملتے ہیں۔ حقی صاحب حسن و عشق کے مضامین کو انوکھے انداز میںؒ بیان کرتے ہیں۔
فروغ حسنِ خوباں دیر تک مہلت نہیں دیتا
اسی دم آہ اس کی جلوہ سامانی پہ مر مٹیے
فیض صاحب نے کہا تھا۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
حقی صاحب نے کس اچھوتے انداز میں غم عشق کی دوستی کا تذکرہ کیا ہے
تھے غم جہاں کے تیور کہ ڈر و مرے غصب سے
غمِ عشق کھینچ لایا مجھے دوستی کے ڈھب سے
اردو غزل میں محبوب کے ہونٹوں کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔ میر نے کہا تھا۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
خواجہ میر درد کہتے ہیں کہ محبوب کے لبوں سے مسیحائی ممکن نہیں
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
شان صاحب کا خوب صورت انداز دیکھئے
ہر بات شگفتہ ہی لگی اس کے لبوں کی
ہر آن شگوفہ سا کھلا اس کے لبوں سے
کچھ بھڑ ک اٹھے گی لو شمع وفا کی
ہرگز نہ بجھے گا یہ دیا اس کے لبوں سے
………
حسن آسودہ صحرا میں ہے آج کل
عشق سرگشتہ آئینہ خانوں میں ہے
………
خود ہی دامن پہ چمک اٹھتا ہے گوہر کوئی
نگہ عشق کو آتی ہے کہاں چھان پھٹک
………
شان
الحق حقی کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا دل دردو غم سے لبریز ہے
زہر غم پیجئے تو الفاظ میں رس آتا ہے
دل کو خوں کیجئے تو افکار میں جاں آتی ہے
………
نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے
درکار مرے دل کو تھے غم اور طرح کے
………
غم رہا سازگار اپنے لیے
کام تھے بے شمار اپنے لیے
حقی صاحب کی غزل کے اشعار کی تعداد ا گرچہ زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں بھرتی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ حقی صاحب کی غزل میں نظم کا سا لطف بھی آتا ہے۔ کسی غزل گو کے لیے غزل کے ہر شعر میں نیا مضمون باندھنا اور قافیہ تلاش کرنا کاردارد ہوتا ہے لیکن حقی صاحب نہایت سہولت سے نیا مضمون باندھ لیتے ہیں اور نیا قافیہ بھی تلاش کر لیتے ہیں اور کمال یہ کہ غزل کا حسن بھی ماند نہیں پڑتا۔ بہت سے غزل گو شاعر نئے تجربات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ حقی صاحب ماہر لسانیات ہیں اس لیے وہ بڑے اعتماد کے ساتھ نئے نئے تجربات کرتے ہیں ۔