امریکہ سے واپسی پر دبئی میں‘ میں اپنے دوست راشد حسین صاحب کے دفتر میں بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ ٹی وی پر جنرل حمید گل کی رحلت کی خبر سنی۔ اینکر کہہ رہا تھا ”اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔“ مشہور مفکر‘ دبنگ تجزیہ نگار‘ جذبہ حب الوطنی سے سرشار جنرل حمید گل دارفانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ شدت غم سے میرا سارا وجود لرز اٹھا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی کافی کی پیالی گرتے گرتے بچی۔ کچھ دیر بعد مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے جنرل صاحب میرے سامنے کھڑے ہیں اور خندہ لبی کے ساتھ فرما رہے ہیں کافی کی یہ نیم گرم بغیر دودھ اور چینی کے ‘ بدمزہ پیالی ختم کر ڈالو۔ کیا تمہارے کافی نہ پینے سے میں لوٹ آﺅں گا۔ کیا میرے جانے سے دنیا کے ہنگامے دم توڑ دینگے۔ نظام کائنات میں خلل پڑ جائیگا۔ تم تو جانتے ہو کہ اس دن کا انتظار ہر مومن کرتا ہے۔ ہر کسی کو رب کائنات کے حضور ایک نہ ایک دن تو پیش ہونا ہی ہے۔ ایک بھرپور اور طویل سفر کے بعد میں تھک سا گیا تھا۔ ملکی حالات سے مضطرب اور مغموم رکھتے تھے۔ دکھی انسانیت کی کسک اور قوم کی حالت زار دل پر ہتھوڑے برساتی تھی۔ حکمرانوں کو میری کھری کھری باتیں سخت ناپسند تھیں۔ کہتے ”جنرل سٹھیا گیا ہے۔“
جنرل حمید گل سے میری پرانی یاد اللہ تھی۔ 1990ء میں جب میرا تقرر بطور ڈپٹی کمشنر ملتان ہوا تو یہ وہاں کورکمانڈر تھے۔ اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ روس کو مجاہدین کے ہاتھوں جو پسپائی ہوئی‘ اس میں ان کا بھی نمایاںحصہ اور کردار تھا۔ صرف تاریخ کے طالبعلم ہی نہ تھے بلکہ تاریخ ساز شخصیت تھے۔ ان کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ روس کا افغانستان پر تسلط محض مقصد نہ تھا بلکہ حصول مقصد تھا۔ گوادر کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے کا جو خواب زاران روس نے دیکھا تھا‘ ان کے جانشین اس کی تعبیر چاہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ نے مالی معاونت کی‘ لیکن لڑنا تو مجاہدین کو ہی تھا۔ ان کو منظم کرنے میں جنرل صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ فرائض منصبی کے علاوہ بھی ان کے اندر چھپا ہوا مردمومن یہ کبھی برداشت نہ کر سکتا تھا کہ برادر مسلم ملک طوق غلامی پہن لے۔ روس کی شکست کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ مجاہدین کچھ بھٹک سے گئے‘ لیکن وہ نرم گوشہ کسی نہ کسی طور ‘ کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا۔ اس نے انہیں کسی حد تک متنازعہ شخصیت بنا دیا۔
جنرل صاحب کو جب میں کرٹسی کال کرنے گیا تو مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ ایک نہایت ذہین‘ فطین‘ حاضر دماغ اور Well Read شخصیت ہیں۔ جب ان سے ملاقات ہوئی‘ انکی باتیں سنیں‘ جس انداز میں انہوں نے ملکی اور غیرملکی حالات پر تبصرہ کیا‘ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ میں ایک عام فوجی جرنیل سے بات نہیں کر رہا اور یہ کہ راوی نے انکی کردار نگاری میں بخل سے کام لیا ہے۔ جیسے جیسے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا تو ان کی ہمہ گیر شخصیت کے پرت کھلتے گئے۔ سرخ و سفید رنگ‘ درمیانہ قد‘ سوچتی ہوئی آنکھیں‘ مسلسل غور و فکر کی وجہ سے ماتھے پر چند شکنیں اور پابند صوم و صلواةکی وجہ سے محراب‘ وہ نہ صرف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے بلکہ انکے دم قدم سے کئی انجمنیں آباد تھیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پہلی ملاقات پر ہی مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے متعلق بھی اتنا ہی جانتے ہیں جتنا مجھے معلوم تھا۔ کسی بھی سرکاری اہلکار کی شہرت اس کے پہنچنے سے پہلے ہی علاقے میں پھیل جاتی ہے۔ مجھے کچھ یوں گمان ہوا کہ اس نے سب سے پہلے جنرل صاحب کے دفتر کا در کھٹکھٹایا ہے۔
میں نے ملتان میں پہلی عالمی اردو کانفرنس کروائی۔ ساری دنیا سے اردو دان مدعو کئے۔ بالخصوص ہندوستان سے پولی چند نارنگ‘ جگن ناتھ آزاد اور لکھنﺅ یونیورسٹی کے ڈاکٹر خلیق انجم آئے۔ وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کو صدارت کرنا تھی۔ رات کو عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جب میں حمید گل صاحب کو مدعو کرنے گیا تو مجھے گمان تھا کہ اول تو انہیں اردو زبان اور شعر و شاعری سے واقفیت نہ ہوگی اوردوم شاید شرکت بھی نہ کریں۔ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب انہوں نے ماہرانہ انداز میں قومی زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں پر تبصرہ شروع کیا۔ فرمانے لگے‘ جس طرح ایک فرد واحد بغیر زبان کے گونگا ہوتا ہے‘ اسی طرح قومیں بھی بغیر زبان کے گونگی ہوتی ہیں۔ بانجھ‘ تخلیق کے عمل سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ ہر قابل ذکر شاعر اور نثر نگار کو خاصی حد تک جانتے تھے۔ میں دل ہی دل میں ہنسا کہ جنرل پر سبقت لے جانے کا ایک نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ بعد میں میں نے ”اردو زبان‘ مسائل اور امکانات“ پر جو کتاب لکھی‘ اس میں بھی جنرل صاحب کے نادر مشورے اور تجاویز شامل تھیں۔
وہ ہر مظلوم انسان کی مدد کرنا عین عبادت سمجھتے تھے۔ ایک دن ان کا فون آیا۔ فوراً پہنچو کوئی ضروری بات کرنی ہے۔ جب میں گیا تو وہ مسلسل مسکرائے جا رہے تھے۔ مجھے دریائے حیرت سے نکالتے ہوئے بولے ”شاہ صاحب! آج ایک عجیب واقعہ ہوا ہے۔ ہاشوانی میرے پاس آیا ہے۔ سخت گھبرایا ہوا ہے۔ ایک ہی بات دہرائے جا رہا ہے۔ جنرل صاحب مجھے بچائیں! مجھے بچائیں! جب اسے اذن اماں ملی تو اس نے بتایا کہ پاکستان کی ایک اعلیٰ شخصیت نے اسے بلا کر دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے کراچی والا ہوٹل پرل کانٹینینٹل اس شخصیت کے نام نہ کرایا تو اسکے خلاف پرچہ درج کرا دیگا۔ وجہ؟ ہاشوانی نے ضیاءالحق کے ساتھ ملی بھگت کرکے چاروں انٹر کانٹینینٹل ہوٹل کوڑیوں کے بھاﺅ خرید لئے ہیں۔ وکیلوں نے ہاشوانی کو بتایا کہ قانوناً کوئی جرم نہیں بنتا۔ وہ Bona Fide پرچیزر ہے۔ اگر پرچہ درج کرانا ہے تو جنرل ضیاءکے خلاف کروائے جو اس وقت آنجہانی ہوچکے تھے۔ دوبارہ بلانے پر ہاشوانی نے کہا میں ہوٹل نہیں دے سکتا۔ آپ پرچہ درج کرا دیں۔ اس پر وہ اعلیٰ شخصیت بڑی جزبز ہوئی۔ ”اب میں پرچہ درج نہیں کراﺅں گا‘ تمہارے بچے اغوا کرواﺅں گا۔ ڈرے ہوئے ٹائیکون نے بچے انگلینڈ بھیج دیئے اور خود فوجی پہرے میں ملتان کے آرمی گیسٹ ہاﺅس میں کافی عرصہ ٹھہرا رہا۔“
اسلامی جمہوری اتحاد بنانے میں ان کا نمایاں ہاتھ تھا۔ بعد میں اس پر بڑی تنقید ہوئی۔ ان کا ایک ہی استدلال تھا۔ مجھ پر مقدمہ چلایا جائے تاکہ میں اس عمل کی وضاحت کر سکوں۔ ایک دن میرے ذریعے انہوں نے میاں نوازشریف کو پیغام بھیجا کہ جلسے جلوسوں میں جتوئی کو ساتھ رکھیں۔ جب میں نے پیغام پہنچایا تو کہنے لگے میں تو کوشش کرتا ہوں۔ یہ خود ہی بدکتا ہے۔ چنانچہ جب لاہور سے ملتان جانے کا پروگرام بنا تو جتوئی بھی ٹرک میں میاں صاحب کے ساتھ تھے۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف زندہ باد‘ جتوئی صاحب نے بڑی سبکی محسوس کی اور ساہیوال پہنچتے ہی کھسک گیے۔
جب نوازشریف وزیراعظم بن گئے تو جنرل صاحب نے ان سے نجی ملاقاتیں ختم کر دیں۔ استفسار پر کہنے لگے۔ اول تو باس جنرل اسلم بیگ سوچے گا کہ میں اسے Bypass کر رہا ہوں‘ دوم لیگی ممبران اسمبلی اس کو ہضم نہیں کر سکیں گے۔ مجھے کہنے لگے فلاں کو بھی یہی مشورہ دو۔ وہ جج کسی حد تک میرا دوست تھا۔ اس نے مشورہ ماننے سے انکار کردیا۔ بعد میں چھوٹے میاں صاحب کے ہاتھوں جو اس کی درگت بنی اس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی زیرطبع سوانح عمری ”شاہ داستان“ میں کر دیا ہے۔
جنرل صاحب بلا شبہ ایک Ambitious انسان تھے۔ وہ پوری ایمانداری سے محسوس کرتے تھے کہ ملک کو بے شمارمسائل درپیش ہیں اور ان کا حل ایک ہی شخص کے پاس ہے جس کا نام حمید گل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف نواز کوآرمی چیف بنا دیا گیا۔ وزیراعظم اور صدر درپردہ ان سے خائف تھے۔ جنرل آصف نواز نے انتقاماً انہیں کھڈے لائن لگا دیا۔ ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس کا انچارج انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ مصلحتاً اسے قبول کرلیں۔ It is not me Shaukat‘ انکا جواب تھا۔ بالفرض چلے جاتے تو آصف نواز کی ناگہانی موت کے بعد سینئر موسٹ ہونے کے ناتے آرمی چیف بن جاتے....
حق مغفرت کرے عجیب آزاد مرد تھا