وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی نے پریس بریفنگ میں پاکستان کے سیاستدانوں سے اپیل کی کہ سکیورٹی معاملات کے ساتھ سیاست نہ کی جائے۔ ان کا اشارہ ایم کیو ایم کی جانب تھا جس نے سوچے سمجھے بغیر اجتماعی استعفے دے دئیے۔ جمہوریت میں انتہائی اقدام سے پہلے حکومت وقت کو مطالبات پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر حکومت نوٹس نہ لے تو استعفوں کا جواز بنتا ہے مگر پاکستان میں چونکہ سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں اور روایات کی پروا نہیں کرتیں اس لیے ایم کیو ایم نے ڈرامائی طور پر سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں استعفے پیش کردئیے جن کا مقصد بلیک میلنگ اور کراچی کے کامیاب فوجی آپریشن کو روکنا تھا۔ گویا اپنے سیاسی اور مالی مقاصد کے لیے ملکی سکیورٹی کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی گئی جو انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی پہلی ترجیح ہے جس پر سمجھوتہ ہرگز ممکن نہیں ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم میاں نواز شریف پاکستان کی سکیورٹی کے سلسلے میں ایک صفحہ پر ہیں۔ دونوں کی مشترکہ کاوشوں اور اتفاق رائے سے آپریشن ضرب عضب کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ افواج پاکستان نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے خوف توڑ دیا ہے۔ کوئٹہ اور کراچی میں طویل عرصے کے بعد یوم آزادی پر لوگ پرچم لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ پشاور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر تھا اب کافی حد تک محفوظ ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ نے بتایا کہ ضرب عضب کے دوران خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات پر 11ہزار آپریشن کیے گئے۔ 2010ءمیں دہشت گردی کے 2067واقعات ہوئے جو 2015ءمیں 695تک محدود ہوگئے ہیں یہ ایک قابل ستائش کامیابی ہے۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ایئر چیف سہیل امان خان کے جرا¿ت مندانہ کردار کو سراہا جو اگلے مورچوں میں جاکر پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ پاک فوج کے جوان اور افسر ملکی دفاع کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ کاش پاکستان کے سیاستدان پاکستان کی سلامتی کی جنگ میں عملی طور پر شریک ہوتے۔ عوام کو بیدار، منظم اور متحد کرتے۔ پاکستانی قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ فوج کے جوان مادروطن کے لیے اپنا خون بہارہے ہیں مگر سیاستدان اپنا پسینہ بھی بہانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ضرب عضب کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔
پاک فوج کی کرشماتی اور متحرک قیادت نے سرگرم، پرجوش اور ولولہ انگیز عملی کارکردگی سے سیاستدانوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عوام کی خاموش اکثریت آج اپنی بہادر افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ سپہ سالار کو سیاسی جماعتوں کی نہیں پاکستان کی فکر ہے۔ سیاسی جماعتیں ضرب عضب میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے جمہوری تماشوں اور ڈراموں میں مصروف ہیں جبکہ سپہ سالار سیاسی چالوں سے بے نیاز ہوکر ضرب عضب کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے قابل رشک کردار ادا کررہے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے رینجرز کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ایم کیو ایم نے استعفوں کا آپشن استعمال کیا مگر سپہ سالار نے دباﺅ میں آنے کی بجائے کراچی پہنچ کر دو ٹوک الفاظ میں کہا۔” دہشت گردی، مجرم مافیاز، تشدد اور کرپشن کے درمیان شیطانی گٹھ جوڑ کو توڑ دیا جائے“۔ اس ہدایت کے ایک روز بعد آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی سابق وزیر ڈاکٹر عاصم اور سوئی سدرن کے ڈپٹی ایم ڈی شعیب درانی کو حراست میں لے لیے گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیاسیاستدان سپہ سالار کے واضح پیغام کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ سکیورٹی معاملات پہلی ترجیح بن چکے ہیں۔ ضرب عضب کو ہر صورت اور ہر قیمت پر اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے۔ سیاسی جماعتیں حالات کا درست ادراک کرلیں۔ رکاوٹ بننے کی بجائے معاون بنیں تو سیاست اور جمہوریت خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔ سندھ میں کرپشن اور مافیاز کے بارے میں تشویشناک رپورٹیں ملکی اور عالمی پریس میں شائع ہوچکی ہیں۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور کرپشن کا پیسہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے بغیر کراچی میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے۔ سیاست کو کرپشن سے پاک کیے بغیر ضرب عضب کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
جناب ایس ایم ظفر کی صدارت میں ہونے والی پاکستان نیشلسٹ فورم کی ایک نشست میں جنرل (ر) راحت لطیف سے جنرل راحیل شریف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ”ان کے خاندان میں شہید ہوتے ہیں یا غازی ہوتے ہیں“۔ بلاشک جنرل راحیل شریف خوف و خطر اور حرص و ہوس سے اوپر اُٹھ کر پاکستان کی بے مثال خدمت کررہے ہیں۔ پاکستان تبدیل ہورہا ہے۔ بلوچستان میں ماحول اس حد تک تبدیل ہوچکا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے خلاف بندوقیں اُٹھانے والے سرینڈر کررہے ہیں۔ جلاوطن نواب آف قلات، براہمداغ بگٹی اور عطاءاللہ مینگل کے صاحبزادے آزادی کی جدوجہد ترک کرکے مذاکرات پر آمادہ ہورہے ہیں۔ افواج پاکستان کے کارنامے صاف نظر آرہے ہیں مگر سیاستدان مکروفن کی سیاست میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اگر انتخابی وعدے کے مطابق صاف اور شفاف احتساب کا آغاز کردیتے تو فوج کو کرپشن کی دلدل میں کودنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی دہشت گردوں کا خاتمہ کیے بغیر ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان نے لودھراں کی تیسری وکٹ بھی حاصل کرلی ہے اور مین آف دی سیریز قرارپائے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن ملک بھر میں جشن منا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کو تیسرا جھٹکا لگا ہے اس نے سپریم کورٹ میں جانے کی بجائے عوام کی عدالت میں جانے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوچکا کہ مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف پر برتری حاصل ہے۔ پنجاب میں ہونے والے تین ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
پاکستان کی اکیس سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے چار ارکان پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ان کی نامزدگی پر قوم سے معافی مانگ چکے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن اور الیکشن ٹربیونلز الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اُٹھاچکے ہیں۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دینے کا الٹی میٹم دیا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کے چار ارکان عوام کی نظر میں بھی متنازعہ ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس واحد آبرومندانہ راستہ یہ ہے کہ وہ فخرالدین جی ابراہیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستعفی ہوجائیں تاکہ ان کی ہٹ دھرمی اور انا کی وجہ سے پاکستان بحران کا شکار نہ ہو۔ تحریک انصاف کو تین وکٹیں گرا کر جو نفسیاتی اور اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے وہ اسے ضائع نہیں جانے دے گی اور موجودہ متنازعہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے گی اور نئے الیکشن کمیشن کی نگرانی میں مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ حکمران جماعت کو اپنے پتے سوجھ بوجھ کے ساتھ کھیلنے ہوں گے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے احتساب سے بچنے کے لیے آپریشن ضرب عضب کو متنازعہ یا ناکام بنانے کی کوشش کی گئی تو ” ٹیکنو کریٹس کی عبوری حکومت “ کا نظریہ ایک بار پھر زندہ ہوجائے گا۔ پاک فوج قومی ادارہ ہے سیاسی جماعت نہیں ہے کہ اس پر انتقامی کاروائیوں کے الزامات لگائے جائیں اور عوام ان الزامات کو سچ مان لیں۔ پاک فوج انتقامی کاروائی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ عدالتیں آزاد ہیں جس کے ساتھ نا انصافی ہو وہ سیاسی بلیک میلنگ کی بجائے عدالت سے رجوع کرے۔ عوام اپنے محافظوں کی کردار کشی کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاریخی انکشاف، سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے بتایا کہ ان کو صدر آصف علی زرداری نے رات دو بجے فون کیا اور حاکمانہ لہجے میں کہا تم ہمارے وزیروں کے خلاف انکوائری کررہے ہو۔ طارق کھوسہ نے صدر زرداری سے ملاقات کا وقت مانگا تاکہ ان کو ریکارڈ پیش کرسکیں جس کے مطابق بعض وزراءمنی لانڈرنگ، انسانوں کی سمگلنگ اور ممنوعہ بور اسلحہ کے لائسینس جاری کرنے میں ملوث تھے۔ صدر زرداری نے طارق کھوسہ کو وقت دینے کی بجائے ان کا تبادلہ کردیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024