حکمران مسلم لیگ (ن) نے حلقہ این اے 122لاہور اور حلقہ این اے 154رحیم یار خاں کا انتخاب کالعدم قرار دینے سے متعلق انتخابی ٹربیونلوں کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بجائے ان حلقوں میں دوبارہ انتخاب کیلئے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ گزشتہ روز وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔
عمران خاں کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگا کر جس جارحانہ انداز میں گزشتہ سال 14اگست کو حکومت مخالف دھرنا تحریک کا آغاز کیا گیا اور اب انتخابی ٹربیونلوں کے فیصلوں کے بعد وہ جس طرح الیکشن کمیشن اور حکومت پر انتخابی دھاندلیوں کا ملبہ ڈال رہے ہیں اسکے پیش نظر حکمران جماعت کو خواجہ سعد رفیق والے حلقے میں انتخابی ٹربیونل کے فیصلے کے وقت ہی دوبارہ انتخاب میں جانے کا فیصلہ کر لینا چاہئے تھا کیونکہ عمران خاں کے انتخابات چوری کرنے کے الزامات کا ازالہ حکمران جماعت انتخابات میں دوبارہ سرخرو ہو کر ہی بہتر انداز میں کر سکتی ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق اب حکمران جماعت نے متعلقہ حلقوں میں دوبارہ انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے یقیناً تحریک انصاف اور دوسری اپوزیشن جماعتیں دفاعی پوزیشن پر آئیں گی۔ تحریک انصاف کی جانب سے ابھی سے الیکشن کمیشن کے ارکان کے مستعفی نہ ہونے کا بہانہ گھڑ کر مجوزہ ضمنی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کا عندیہ مل رہا ہے۔ اگر عمران خاں ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو یہ انکی بہت بڑی سیاسی غلطی ہو گی کیونکہ اسی الیکشن کمیشن کے ماتحت وہ پنجاب، سندھ اور خیبر پی کے میں خالی نشستوں کے ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ سیاستدانوں کو اب بہرصورت تعمیری سیاست کو فروغ دیکر جمہوریت کی رکھوالی کرنی چاہئے ورنہ انکی آپس کی چھینا جھپٹی میں طالع آزماﺅں کو پھر انکے ہاتھ سے اقتدار کی بوٹی چھیننے کا موقع مل سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024