کارروائی سندھ یا پی پی پی تک نہیں، پنجاب میں مسلم لیگ ن بھی ہدف بن سکتی ہے: بی بی سی
اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) صوبہ سندھ میں جاری رینجرز کے آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد ایک سوال سیاسی حلقوں میں زیربحث ہے اور وہ یہ کہ کیا بدعنوانی کے الزامات کے تحت سیاستدانوں کے خلاف کارروائی صوبہ سندھ اور پیپلز پارٹی تک محدود رہے گی یا باقی صوبے اور سیاسی جماعتیں بھی اس کا شکار ہو سکتی ہیں؟ معاملات سے باخبر تجزیہ کار اور بعض اہم سیاسی کھلاڑی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ کارروائی صرف سندھ یا پیپلز پارٹی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پنجاب اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ بھی بدعنوانی کے خلاف اس کارروائی کے نشانے پر آ سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے فوج اور رینجرز کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ہدف تنقید بنانے پر بعض سیاسی حلقوں میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کی وجہ سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج پیدا ہو گی، دوبارہ دھرنے جیسا سیاسی بحران پیدا ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی دوبارہ نواز حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ حکومت نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی سے اپنے آپ کو جس طرح الگ رکھا ہے اس سے ان دونوں جماعتوں میں مفاہمت اور بڑھے گی۔ ’وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کو صاف پیغام دیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم یا پارٹی کے دیگر لوگوں کے خلاف سندھ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ۔ وفاقی حکومت نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی تو اس کے لئے نیب کو استعمال کیا جاتا۔‘ بی بی سی کے مطابق حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کی جماعت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان جاری مفاہمتی پالیسی ختم نہ ہونے کے امکان کے حق میں ایک دلیل اور بھی دی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن بھی اسی صورتحال کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس جانب اشارہ خود مسلم لیگ کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے نجی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کی جماعت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ’یہ چیزیں جیسا کہ کرپشن وغیرہ یہ کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہتیں۔ اگر ایسے لوگ ہماری صفوں میں بھی ہیں تو ان کی باری بھی آ جائیگی۔ ہم اس سے مبّرا نہیں یا ہمیں اس سے استثنیٰ حاصل نہیں۔‘ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف ان کارروائیوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ اس جماعت پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات سے نہ صرف اس جماعت کو نئی زندگی مل رہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تعلقات اور مفاہمت مزید بڑھے گی۔ کیونکہ بالآخر یہ دونوں جماعتیں ایک ہی کشتی کی سوار ہیں۔