سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور رونما ہوئے ایک برس دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس پر بھی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر آئی جی پنجاب نے اس سانحہ پر 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ سانحہ پر ملک بھر میں عوام کے شدید ردعمل پر وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے لاہور ہائیکورٹ سے درخواست کی کہ اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ اس پر اس وقت کے چیف جسٹس ہائیکورٹ نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اعلان کیا کہ اگر تحقیقات میں مجھے اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو فوراً مستعفی ہو جاﺅں گا۔ انہوں نے 18 جون 2014ءکو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مسٹر جسٹس علی باقر نجفی ایک ماہ میں اپنی سفارشات دینگے۔ عوامی حلقوں کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرقانون رانا ثناءاللہ کے استعفوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا کہ 21 جون 2014ءکو وفاقی وزیراطلاعات پرویزرشید کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔ ممکن ہے سانحہ میں عوامی تحریک ملوث ہو۔ اسی روز وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کے ارکان پنجاب اسمبلی سے گفتگو کی خبر بھی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے قوم کو آگاہ کیا جائیگا۔لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے جوڈیشل کمیشن کے حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے 26 جولائی 2014ءکو اپنے نامزد کردہ سپیشل سیکرٹری کے ذریعے بیان حلفی کمیشن کے روبرو جمع کرایا۔ اس بیان حلفی میں انہوں نے کہا تھا کہ 17 جون کو جب میں اپنی سرکاری مصروفیات کیلئے تیار ہو رہا تھا تو ٹیلیویژن کی خبر سے معلوم ہوا کہ ادارہ منہاج القرآن کے قریب اسکے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔ میں نے فوری طورپر اپنے سیکرٹری ڈاکٹر سید توقیر شاہ کو فون کرکے اس واقعہ کی بابت دریافت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 16 جون کو صوبائی وزیر قانون و لوکل گورنمنٹ رانا ثناءاللہ نے ادارہ منہاج القرآن کے گرد تجاوزات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس فیصلے سے مطلع کیوں نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں نے ڈاکٹر توقیرشاہ کو حکم دیا کہ فوری طورپر پولیس کو وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اسکے بعد میں شیڈول کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے گورنر ہاﺅس روانہ ہو گیا۔ بعدازاں پہلے سے طے شدہ سرکاری مصروفیات کو نمٹانے کیلئے ماڈل ٹاﺅن چلا گیا۔ اس دوران مجھے اطلاع دی گئی کہ ادارہ منہاج القرآن کے باہر امن و امان کی صورتحال سنگین ہو گئی ہے جسکے نتیجے میں متعدد شہری اور پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے۔ یہ سن کر مجھے بہت دکھ اور تکلیف ہوئی جس پر میں نے فوری طورپر متعلقہ وزراءاور سینئر سرکاری افسروں کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ واقعہ میں جاں بحق ہونیوالوں کے پسماندگان کو امداد دی جائے۔ زخمیوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں انکوائری ٹربیونل قائم کیا جائے۔ اس کیساتھ ساتھ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے واقعہ کے بارے میں شفاف اور آزادانہ تحقیقات بھی کرائی جائیں۔ میں نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اور شفاف تحقیقات کیلئے فوری طورپر سی سی پی او اور ڈی آئی جی آپریشن اور ایس ایس پی ماڈل ٹاﺅن کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔
ماہ اگست 2014ءکے اوائل میں جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ کو حکومت کو پیش کر دی تو اسکی اشاعت اور اس کو منظرعام تک لانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس پر 26 اگست 2014ءکو پنجاب حکومت ترجمان کے حوالے سے ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ ماڈل ٹاﺅن واقعہ کے بارے میں جوڈیشل ٹربیونل کی رپورٹ موصول ہو چکی ہے اور اسکا جائزہ لیا ہے۔ غیرحتمی رپورٹ کے مزید تجزیئے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رپورٹ نامکمل ہے اور جن دستاویزات‘ بیانات اور بیان حلفی پر مشتمل ہے وہ رپورٹ کے ساتھ مہیا نہیں کئے گئے۔ رپورٹ ملتے ہی ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی کہ مذکورہ دستاویزات فوری طورپر فراہم کی جائیں تاکہ رپورٹ کا بغور جائزہ لیکر ضروری کارروائی کی جا سکے۔
اسکے بعد کچھ پتہ نہ چلا کہ مسٹر جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کیا ہوئی؟ اسے نہ منظرعام پر لایا جانا تھا نہ لائی گئی۔ ہاں سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آگئی۔ اس انویسٹی گیشن ٹیم کو عوامی تحریک کی قیادت نے تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا۔
اب جہاں تک حالیہ دلدوز سانحہ قصور کا تعلق ہے‘ اگرچہ لاہور ہائیکورٹ نے اس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے حکومتی درخواست مسترد کردی ہے مگر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اس سانحہ پر بھی ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا دی ہے۔ اس ٹیم کی سربراہی ڈی آئی جی ابوبکر کو سونپی گئی ہے۔ اسکے دیگر ارکان میں ایس پی خالد چیمہ‘ ڈی ایس پی لیاقت علی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دو افسر شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کو دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اب دیکھیں کہ اس جے آئی ٹی میں جس شعبے کے ارکان کی بہتات ہے وہ اپنے ان پیٹی بندوں کو کلین چٹ دینے میں کامیاب ہونے میں کس حد تک تگ و دو کریں گے جو قصور کے روح فرسا اور گھناﺅے سانحہ کے مرتکب درندہ صفت لوگوں کی سرپرستی کرتے رہے۔بہرحال حکومت نے کسی سانحہ کی تفتیش و تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا جو نیا راستہ تراشا ہے‘ اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ارباب حکومت کے سرکاری ملازمین میں من مرضی کے لوگوں کو ایسی تحقیقاتی ٹیم میں شامل کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس کی رپورٹ کو منظرعام پر بلا خوف و خطر لایا جا سکتا ہے۔ اسکے برعکس ہمارے ملک میں جوڈیشل کمیشن کی تو ایک ناقابل فراموش قسم کی تاریخ ہے۔ یہ حقیقت حال بھی پنجاب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس کے عہد میں پنجاب پولیس کی حالت اس قدر افسوسناک ہو گئی ہے کہ لوگ پولیس کے ہاتھوں عاجز ہو چکے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024