ایران نے امریکہ کے ساتھ اگلے مذاکراتی دور سے پہلے ان یورپی ممالک کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرنے کی تجویز دی ہے جو 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل تھے۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے تین دور ہو چکے ہیں ۔ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں ایران اور امریکہ کے درمیان اب تک کا آخری دور اومان کے دارالحکومت مسقط میں ہوا ہے ۔ اومانی حکام کا خیال ہے کہ اگلا دور امکانی طور پر یورپی ملک میں ہوگا۔ اس سے پہلے بھی مذاکرات کا ایک دور روم میں ہو چکا ہے۔پیر کے روز چار سفارتکاروں نے متوجہ کیا ہے کہ یورپی ملکوں کا اس بارے میں ابھی ریپانس آنا باقی ہے۔ یہ مذاکراتی دور جمعہ کے روز روم میں متوقع ہو سکتا ہے۔ایران امریکہ کے ساتھ اپنے جوہری ایشو پر مذاکرات کو تعمیری انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور سے پہلے ایران روس اور چین کے ساتھ بھی بات چیت کر چکا تھا۔ یہ بات چیت پچھلے ہفتے ہوئی تھی۔ اومان کے حکام کے مطابق ایران کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور تین مئی کو یورپ میں ہو سکتا ہے۔ تاہم ابھی اس بارے میں کوئی رسمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ایران اسی دورانیے میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ رسائی کر چکا ہے۔ ان تین بڑے یورپی ملکوں کو عام طور پر 'ای 3' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے لیے تمام آپشنز کو کھلا رکھا ہوا ہے تاہم یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ یورپی ملک اقوام متحدہ کی اکتوبر میں ایران پر مزید پابندیوں کے تناظر میں کہاں کھڑے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایران پر یہ پابندیاں 2015 کے جوہری معاہدے کی توثیق نہ کیے جانے کی صورت لگائی جانا ہیں۔تین بڑے یورپی ملکوں میں سے دو کے سفارت کاروں اور ایک اور مغربی سفات کار کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا ایک اور دور روم میں اگلے جمعہ کو تجویز کیا گیا ہے۔ ان سفارت کاروں کے مطابق ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور سے پہلے تہران میں بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوا تو اس کے بعد ایران کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ابھی کچھ سنجیدہ نوعیت اختلافات باقی ہیں۔ اب ایران کے سفارتی حکام یورپی ملکوں کے ساتھ بھی مذاکرات چاہتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں ابھی متعلقہ یورپی ملکوں نے کوئی ریسپانس نہیں دیا ہے۔یورپی سفارتی حکام کے مطابق وہ فی الحال اس امر کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اب جبکہ امریکہ کے ساتھ ایرانی مذاکرات جاری ہیں تو ان کا درمیان میں آنا ان کے لیے مفید رہے گا یا نہیں۔ اس لیے ان کے سامنے یہ آپشن بھی ہے کہ آیا انہیں امریکہ ایران مذاکرات کو دیکھو اور انتظار کرو کے تحت دیکھتے رہنا چاہیے۔ تاہم یہ سفارت کار تہران میں کسی مذاکراتی نشست کا امکان بہر حال رد کرتے ہیں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعرات کے روز کہا تھا وہ مذاکرات کے لیے یورپی ملکوں کے پاس جانے کو تیار ہیں۔ اگرچہ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ گیند اب یورپی ملکوں کی کورٹ میں ہے دو ملکوں کے درمیان معاملہ خراب ہوا تو یورپی ملکوں کے کورٹ میں گیند ہوگی۔فریقین کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد گیند یورپ کے کورٹ میں ہے۔ یاد رہے پچھلے ستمبر کے بعد سے، تہران اور تین یورپی طاقتیں اپنے تعلقات اور جوہری معاملے پر بات چیت کے لیے کئی بار ملاقاتیں کر چکی ہیں۔پچھلے ماہ مارچ کے دوران تازہ ترین میٹنگ تکنیکی سطح پر منعقد کی گئی تھی، جس میں پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں ایران کے جوہری پروگرام کے رول بیک کو محفوظ بنانے کے لیے مستقبل کے معاہدے کے عملی طریقہ کار پر غور کیا گیا تھاصدر ٹرمپ نے 2018 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے یکطرفہ طور پر معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔ اب انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایران پر حملہ کریں گے جب تک کہ وہ کسی نئے معاہدے پر تیزی سے نہیں پہنچتا جو اسے جوہری ہتھیار بنانے سے روکتا ہے۔یورپی ملکوں کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں ہے۔ مگر ایران اس امر کی تردید کرتا ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ نئی پابندیوں کی دھمکی کا مقصد تہران پر مراعات کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، جس سے امریکیوں اور یورپیوں کے درمیان حکمت عملی پر تفصیلی بات چیت ضروری ہے۔
امریکہ سے اگلے مذاکراتی دور سے پہلے ایران کی یورپی ملکوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز
Apr 29, 2025 | 10:38