راجہ شاھد رشید
raja.shahid1973@gmail.com
عمومی طور پہ یہی سمجھا جاتا ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں دو ہی بڑے گاؤں صدیوں سے آباد ہیں ، ایک گولڑہ اور دوسرا بری امام ، جس کا پرانا نام تھا نور پور شاہاں ، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ، یہ دونوں گاؤں دو بڑے بزرگانِ دین اور ان کے مزارات کی وجہ سے معروف ہیں۔ مارگلہ کے قرب و جوار میں ایک نہیں کئی ایک گاؤں آباد تھے جو یہاں اسلام کے آباد ہونے پر یعنی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بننے کے باعث ختم ہو گئے اور یہاں کے باسیوں کو متبادل زمینیں دے دی گئی تھیں۔ یہاں کچھ گاؤں گکھڑوں اور گوجروں کے تھے لیکن سب سے زیادہ گاؤں اور قصبات راجپوتوں کے تھے اور بالخصوص سب سے بڑے مالکان جموں کے ڈوگرہ راجگان کی شاخ بکھڑال راجپوت تھے۔ ان دیہات کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ چک بکھڑال ، گاندھیاں ، بانیاں بکھڑال ، جوہد ، میدہ علیم ، زیرو پوائنٹ والی جگہ چک جابو نامی گاؤں تھا۔ آئی نائن کے قریب گاؤں ڈاور تھا ، در حقیقت لفظ ڈوگر ہی بگڑ کر ڈاور بنا تھا۔ یہ گاؤں پرانے وقتوں میں شہر یعنی راولپنڈی کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ گاؤں گاندھیاں کے سوا ان میں سے کوئی ایک گاؤں بھی باقی نہ رہا اور نہ ہی یہاں کے رہنے والے اب یہاں رہے ہیں۔ ایف ایٹ کے ایریا میں کچہری اور ایف نائن پارک کے قریب گاؤں بانیاں بکھڑال کا قدیمی قبرستان اور مسجد آج بھی موجود ہیں۔ میرے پیارے اور نیارے دوست راجہ عامر شہزاد پکھڑل کا پیدائشی تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔ موصوف ہماری پکھڑال جموال راجپوت کونسل کے بانی و صدر بھی ہیں۔ یاسر کیانی کے الفاظ میں۔
اِس دیس دا حْسن چوھدری اے
تے عشق راجہ اسی جاگیر دا اے
برادرم عامر شہزاد فرماتے ہیں کہ ایک افغانی خاندان گزشتہ چار برس سے ہمارے پڑوس میں آباد تھا جو معاشی اعتبار سے کافی مضبوط تھا۔ ان کے کچھ افراد امریکہ تھے، بس ایک مرد دو معذور خواتین اور دو معصوم بچے یہاں تھے۔ ان بچوں سے ہمیں ایسی محبت تھی جو نہ میں بیان کر سکتا ہوں نہ آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ چند دن قبل اس فیملی کو پولیس نے اٹھا کر مہاجر کیمپ منتقل کر دیا، جب پولیس انہیں لے جا رہی تھی، ان کے دروازے کھلے تھے، وہ بچے ہمارے لیے تڑپ رہے تھے جبکہ ہم ان بچوں کے لیے رو رہے تھے۔ میں نے ان کا قیمتی سامان، سونا، پیسے اور دیگر قیمتی اشیاء محفوظ مقام پر منتقل کر کے نیت باندھ لی تھی کہ یہ سب کچھ ان کے حوالے کروں گا۔ وہ افغانی مہاجر کیمپ میں یہ سوچتے رہے کہ یہ پاکستانی ہیں ہمارا سامان تو اب گیا۔ میں نے ان کا سامان جب ان کو دیا تو وہ شخص رو کر کہنے لگا کہ آپ نے تو دیانت و امانت کی ایک مثال قائم کر دی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں نسل والا ہوں ، پاکستانی ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ سب سے پہلے میں مسلم ہوں، اللہ نے مجھے سرخرو فرمایا ہے۔ بقول اقبال۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے قصبہ چوآ خالصہ سے سینکڑوں افغانی 48 برس بعد افغانستان روانہ ہو گئے۔ ان کی واپسی پر اسلامی اخوت و بھائی چارے اور باہمی احترام و محبت کے مظاہرے، رقت آمیز مناظر، دونوں طرف سے آہوں ، سسکیوں اور فریادوں کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کر کے تاریخ رقم کی گئی۔ 150 نوجوانوں نے افغانی مسلم بھائیوں کا سامان پیک کر کے گاڑیوں پر لوڈ کیا۔ انہیں ناشتہ، دن کا کھانا اور پھر راستے کے لیے بھی کھانا مہیا کیا۔ مسجد میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی، عوام کا جم غفیر تھا، سب افغان بھائیوں سے گلے مل رہے تھے اور رو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کو زندگی میں دوسری بار ہجرت کا سامنا ہے ، ہم سب کی دعا ہے اللہ آپ پر خصوصی رحمت نازل فرمائے۔ دونوں اطراف کی خواتین نے دھاڑیں مار مار کر ایک دوسرے کو الوداع کرتے ہوئے کہا کہ کاش چند افغانی دہشت گردی میں ملوث نہ ہوتے تو لاکھوں افغان بھائیوں کو دوسری بار ہجرت کی ان تلخیوں سے نہ گزرنا پڑتا۔ افغان قوم اور افغانستان دھرتی کی ایشیا میں اہمیت و حیثیت کے حوالے سے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رح نے فرمایا تھا کہ۔
آسیا یک پیکرِ آب و گْل است
ملتِ افغاں در آں پیکرِ دل است
آج اس زمین اور کائنات پر یہ جو ظلم کی ایک داستان مرتب ہو رہی ہے بلاشبہ یہی تلخ حقائق ہی کل کو تاریخ بنیں گے۔ لاہور کے ایک افغانی کو پولیس لے گئی تو لوگوں نے اس کی ساری دکان لوٹ لی، پنکھے اور بلب تک بھی نہ چھوڑے، یا اللہ یہ کیسے مسلم ہیں۔؟ مجھے کسی نے یہ بتلایا ہے کہ اسلام اباد میں بھی افغان مسلم بھائیوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں پولیس پیسے بٹورتی رہی، مردوں کی غیر موجودگی میں گھروں پر حملے کیے، ایک ایک کمبل دے کر سینکڑوں افغانیوں کو بکریوں کی مانند چھوٹے چھوٹے کمروں میں بند کر دیا گیا۔ یہ بربریت نہیں تو اور کیا ہے۔؟ یہ حدیں سرحدیں سب ادھر ہی رہ جائیں گی۔ دین اسلام تو اس طرح کے افکار و مفاہیم بیان فرماتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلم ایک جسم کی مانند ہیں۔ حتیٰ کہ دین تو اس وطنیت کی تقسیم کو بھی تسلیم نہیں کرتا ، بقول اقبال۔
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے