پاکستان میں سیاسی و آئینی بحران اس وقت پیدا ہوا جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں کسی ٹھوس جواز کے بغیر توڑ ڈالیں- انہوں نے یہ انتہائی اقدام وفاقی حکومت کو دباو¿ میں لانے کے لیے اٹھایا تاکہ وہ عام انتخابات کے لیے آمادہ ہوجائے اور عمران خان اپنی عوامی سیاسی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر ایک بار پھر ایوان اقتدار میں پہنچ جائیں- حکمران اتحادی جماعتوں کے لیڈروں کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن کے مطابق وہ یہ کہتے رہے کہ اگر عمران خان صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں تو وہ عام انتخابات کرا دیں گے- جب عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر مہم جویانہ قدم اٹھا لیا تو حکمران جماعتوں نے انتخابات کرانے سے انکار کردیا کیونکہ ان کو علم تھا کہ اگر موجودہ حالات میں انتخابات کرائے گئے تو ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا-
لاہور ہائی کورٹ کے جج نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ڈائریکٹو جاری کیا کہ وہ آئین کے تقاضوں کے مطابق نوے روز کے اندر پنجاب میں انتخابات کرائے- اتحادی جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی جو دو ججوں کے سامنے زیر سماعت تھی-اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے انتخابات کے سلسلے میں سوو موٹو نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی بنچ تشکیل دیا جو ججوں کے درمیان اختلاف رائے کی بنیاد پر تین رکنی بنچ تک محدود ہو گیا- پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر 224 کی شق 2 اور آرٹیکل نمبر 105 کی شق 3 کے مطابق جب کوئی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو 90 روز کے اندر انتخابات کروانا لازمی ہیں-
اس سلسلے میں آئین میں کوئی ابہام نہیں ہے اور آج تک کسی جج اور کسی وکیل نے آئین کے اس تقاضے سے اختلاف نہیں کیا-البتہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب نو ججوں میں سے چار ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تحریر کیا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل نمبر 184 کی شق نمر 3 کے مطابق سوموٹو کا اختیار نہیں ہے کیوں کہ انتخابات کے انعقاد کا مسئلہ لاہور ہائی کورٹ کے زیر سماعت ہے-چار ججوں کے اختلاف رائے کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی اخلاقی اتھارٹی کمزور پڑ گئی جس سے اتحادی حکومت نے پورا فائدہ اٹھایا اور بار بار یہ موقف اختیار کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے تین ججوں کے فیصلے کو نہیں بلکہ چار ججوں کے فیصلے کو مانتی ہے حالانکہ چار ججوں نے فیصلہ نہیں بلکہ اپنی رائے دی تھی اور آرڈر آف کورٹ تین ججوں کا تھا-سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے سیاسی اور آئینی بحران مزید سنگین ہوگیا-
پارلیمنٹ عدلیہ کے سامنے کھڑی ہو گئی- تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی اگر استعفے نہ دیتے تو موجودہ سنگین صورت حال پیدا نہ ہوتی- آئین کے آرٹیکل نمبر 5 کے مطابق ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ ریاست کا وفادار رہے اور آئین و قوانین کی پاسداری کرے- ریاست کے تمام اداروں کا آ ئینی فرض ہے کہ وہ وہ ریاست کو آئین و قانون کے مطابق چلائیں-
ریاست کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے کسی عدالتی حکم کی ضرورت نہیں ہے مگر پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں ہمیشہ قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کے قانون پر عمل کیا جاتا رہا ہے-قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے انتخابی اخراجات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک خط ارسال کیا ہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ تین رکنی بینچ کے احکامات تشویش اور بے چینی کا باعث بن رہے ہیں - تین رکنی بینچ نے پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نظر انداز کیا ہے- بینچ کی جانب سے انتخابی اخراجات نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکی قومی اسمبلی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے-عدلیہ آئین کی تشریح تو کر سکتی ہے مگر آئین کو دوبارہ نہیں لکھ سکتی- تین رکنی بینچ کے فیصلے محاذ آرائی کا سبب بن رہے ہیں- عدلیہ کا احترام لازم ہے مگر عدلیہ کو بھی دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے -
سیاسی معاملات کو پارلیمان اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیا جائے سپریم کورٹ سیاسی جھگڑوں میں الجھنے سے گریز کرے- خرابی¿ بسیار کے بعد آخرکار حکمران اور اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کے سلسلے میں مذاکرات کا آغاز کردیا ہے تحریک انصاف نے مو¿قف اختیار کیا ہے کہ مئی میں قومی اور سندھ بلوچستان اسمبلیاں تحلیل کر کے جولائی میں عام انتخابات کروائے جائیں-
مذاکرات سے امید پیدا ہوئی ہے کہ سیاستدان افہام و تفہیم کے ساتھ اپنے سیاسی مسائل پر اتفاق رائے قائم کر لیں گے تاکہ پاکستان کو ہیجانی صورتحال سے باہر نکالا جاسکے اور پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے-پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کر لی ہے-
پاکستان کے غیر جانبدار محب الوطن مفکر اور دانشور اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراو¿ سٹرکچرل جمود کی وجہ سے ہو رہا ہے- تمام ریاستی اداروں میں با معنی و مقصد اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ان کی شفافیت اور فعالیت کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے اور وہ آئین و قانون کے مطابق چلنے کے قابل ہو سکیں- پاکستان کا موجودہ آئینی وسیاسی بحران بد نیتی اور منافقت کی وجہ سے ہے اگر پاکستان کے اہل دیانتدار اور محب الوطن فراد کو ریاست چلانے کے مواقع فراہم ہو سکیں تو ریاست کو بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38