زمانہ قبل از اولین مارشل لاءمیں میرے علم میں نہیں کہ کسی حکومت نے کسی اپوزیشن جماعت سے مذاکرات کئے ہوں۔یہ تمام عہد سیاسی شوریدہ سری کا رہا۔مشرقی پاکستان میں سیاسی بھونچال آتے رہے ۔مسلم لیگ ہاری اور"جگتو فرنٹ"جیت گیا مگر فریقین کے باہم"مذاکرات"نام کی کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی ۔مذاکرات یا "گول میز کانفرنس"کانام پہلی بار تب سنا جب جنرل ایوب خاں کاچل چلاﺅ تھا۔شہروں شہروں اس کے خلاف جلوس نکل رہے تھے اورسیاسی درجہ حرارت قابومیں نہیں آرہا تھا۔ایسے میں جنرل ایوب خاں نے نوابزادہ نصراللہ خاں کوخط لکھ کرمذاکرات کی دعوت دی اورایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ نوابزادہ صاحب کی سربراہی میں خان عبدالولی خاں، ایئر مارشل اصغر خاں اورمفتی محمود وغیرہ کے علاوہ سب سے اہم شرکت مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی تھی۔ مغربی پاکستان سے ذوالفقارعلی بھٹو نے کانفرنس کابائیکاٹ کردیا۔ الیکڑانک میڈیانام کی کوئی چیز نہیں تھی ماسوائے PTVکے مگر وہ چند لوگوں تک محدود تھا۔ اخبارات میں بھی سب سے زیادہ اہم روزنامہ "نوائے وقت" تھا۔ اس کی خبریں، تجزیئے ا وراداریئے سب سے زیادہ مستند مانے جاتے کیونکہ یہ حزب اختلاف کاواحد نمائندہ اخبار شمار کیا جاتا تھا۔ کئی ہفتے ان مذاکرات میںگذر گئے اور یہ گول میز کانفرنس اور مذاکرات ناکام ہوگئے۔ ایوب خاں رخصت ہوا اور یحییٰ خاں نے دوسراتازہ دم مارشل لاءلگا کر اقتدار سنبھال لیا۔ اب پاکستان ایک دوسرے جنرل کے رحم وکرم پر تھا۔ مشرقی بھی اورمغربی بھی۔ یحییٰ خاں کادورمغربی پاکستان کی مذہبی جماعتوں کوبہت راس آیا مگر مشرقی پاکستان کے حالات جوپہلے ہی دگرگوں تھے، اب بدتر ہوتے چلے گئے۔ جب 70ءکے انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج نے یحییٰ خاں کوامتحان میں ڈال دیا۔ سیدھا سا جمہوری رستہ تو یہی تھا کہ انتخابات کے بعد ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کاجو اجلاس بلایاگیا تھا اس میں ملک کی اکثریتی جماعت شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو اقتدار پرامن طورپر جمہوری انداز میں حسب وعدہ منتقل کردیا جاتا مگر اس منتقلی میں یحییٰ خاں کے ہاتھ سے اقتدارچلا جاتا اور ذوالفقار علی بھٹو کے وزیراعظم بننے کے خواب بھی چکنا چور ہوجاتے۔ تاہم اس دوران ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوتے رہے مگر اس میں چونکہ حکومت فریق نہیں ہوتی تھی اس لئے اقتدار سے باہر دو جماعتوں کے آپس میں مذاکرات آخرکیا رنگ لاتے۔ ایئر مارشل اصغر خاں نے اپنی کتاب "جرنیل سیاست میں "یحی خاں اورشیخ مجیب الرحمان کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کاذکرکیا ہے جس میں شیخ مجیب الرحمان نے یحییٰ خاں کو پاکستان کا صدر بنانے کی پیشکش کی تھی۔ یحییٰ خاں نے یہ پیشکش ان الفاظ کے ساتھ ٹھکرادی کہ میں "ملکہ برطانیہ "نہیں بننا چاہتا، یعنی میں بے اختیار صدر نہیں بننا چاہتا۔ گویا یحییٰ خاں کو ہتھیار ڈالنا منظور تھے مگر پاکستان کا منتخب صدر بننا منظور نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کہا کہ مجھے شیخ مجیب الرحمان کے 6نکات میں سے 5-1/2 منظور ہیں۔ بالآخر ان دونوں کے درمیان مذاکرات کی ڈوری آدھے نکات پر ٹوٹ گئی اور یحییٰ خاں نے مشرقی پاکستان میں نہتے عوام پر گولی چلا کرمذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ اس شکست کے بعد جوفوجی بھی تھی اور سیاسی بھی ذوالفقارعلی بھٹو کو جرنیلوں نے مغربی پاکستان کااقتدار سونپ دیا جسے انہوں نے "نیا پاکستان" کانام دے کراپنے اقتدار کے سفر کا آغاز کیا ۔اس دورمیں بہت کچھ اچھا اورکچھ غلط ہوا۔ اسی تناظر میں انہوں نے دسمبر76ءمیں قومی انتخابات کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے چند دنوں کے اندراندر ہی لاہور میں ان کے خلاف پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد"پاکستان قومی اتحاد "(PNA)کے نام سے سامنے آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی انتہاﺅں کو چھونے لگا۔ نشتر پارک کراچی میں ہونے والے پہلے جلسے نے ہی اسے مقبولیت کوسند عطا کردی۔ اگر چہ اسے "تحریک نظام مصطفے" کانام بھی دیاگیا مگر اس اتحاد نے مرکزی بیانیہ یہ دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو انتخابات میں دھاندلی کاارادہ رکھتے ہیں اور اگر دھاندلی ہوئی تو ان کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔ بدقسمتی سے ایساہی ہوا جب خود ذوالفقار علی بھٹو بلامقابلہ کامیاب ہوگئے۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت اٹھائیس کے لگ بھگ پیپلز پارٹی کے امیدوار بھی "بلامقابلہ" کامیاب ہوگئے۔ اس سے اتحاد کے موقف کوتقویت ملی اور حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز ہوگیا۔ یہ تحریک نہیں ایک زبردست اورخوفناک قسم کی آندھی تھی جس کی زدمیں ذوالفقار علی بھٹو آئے تو انہوں نے قومی اتحاد کے راہنماﺅں کو مذاکرات کی دعوت دے دی۔ ایک بارپھر نوابزادہ نصراللہ خاںاپنا ہنر آزمانے کے لئے تیار ہوئے ان کی قیادت میں مفتی محمود اور پروفیسر غفور قومی اتحاد کی طرف سے اور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں حفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی نے حکومت کی طرف سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ چار ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کاحاصل صفر جمع صفر نکلا۔ قومی اتحاد کے راہنماﺅں کی تعداد 9 تھی۔ ہرکسی کی اپنی اپنی رائے تھی جوکبھی اتفاق رائے میں تبدیل نہ ہوسکی ۔ اورمذاکرات ناکام ہوگئے۔ مذاکرات کی ناکامی کے اگلے روز جنرل ضیاءالحق نے 5جولائی 77ءکو ذوالفقار علی بھٹو ،ان کے ساتھیوں اور "قومی اتحاد" کے تمام راہنماﺅں کوگرفتار کرکے ملک میں مارشل لاءلگا دیا اور ملک کے سیاہ سفید کا مالک بن گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں کبھی کسی سیاسی جماعت سے مذاکرات نہیں کئے۔ جماعت اسلامی اورچند ایک مذہبی جماعتوں کے سربراہوں سے ذاتی تعلق رکھا مگر مذاکرات نام کی کسی چیز کا ضیاءالحق کے نزدیک کوئی تصور نہیں تھا اورنہ ہی یہ مذہبی جماعتیں اس کی خواہاں تھیں۔ ضیاءالحق بھی ایک روز ہمیں "روتا دھوتا" چھوڑ کر اللہ کے پاس چلا گیا۔ اس کے بعد کا سارا دور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان قوم کا وقت ضائع کرنے میں گذرگیا۔ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو قوم کی تباہی کا دنگل نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان شروع ہوگیا جو اس شرط پر ختم ہواکہ دونوں کے "مال غنیمت" کی بابت کوئی پوچھ نہیں ہوگی۔ سنجیدہ یا سیاسی مذاکرات پیپلز پارٹی اورن لیگ کے درمیان کبھی بھی نہ ہوئے۔ اب ایک بارپھر PDM کے نام سے بننے والی حکومت اورعمران خاں کے درمیان مذاکرات کی باتیں ہورہی ہیںتو ماضی کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض وقت ضائع کرنے کا ایک حربہ ہے۔ ضائع کرنے کے لئے اب قوم کے پاس کوئی وقت نہیں۔ بھنور سے نکل کرآگے بڑھنے کے لئے سیدھا سیدھا آئین پر عمل کرنے کے علاوہ دیگر کوئی راستہ نہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38