
کیا جس کا زور ہو گا اس کی حکومت ہو گی، یا جو طاقتور ہو گا وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کرے گا۔ گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مضحکہ خیز بات کی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ چودہ مئی کو بھی الیکشن نہیں ہوتے تو آئین ٹوٹ جائےگا، اگر آئین ٹوٹ گیا تو پھر جس کا بھی زور ہو گا اسی کی بات چلے گی۔ عمران خان کا یہ لب و لہجہ بہت خطرناک قابل گرفت بھی ہے۔ سیاسی رہنماو¿ں کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں اور پاکستان کے سیاسی رہنما جن حالات میں پھلتے پھولتے ہیں انہیں تو بالکل بھی زیب نہیں دیتیں کیونکہ یہ سب اقتدار میں آنے کے لیے ایک ہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ سب مختلف وقتوں میں طاقتور حلقوں سے مدد لیتے ہیں اور سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس کا زور ہے۔ بالخصوص جب ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر سب جانتے ہیں کہ کس کا زور چلتا ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان نے یہ پیغام حکومت اور طاقتور حلقوں تک پہنچایا ہے تاکہ انہیں اپنے بیانیے کے مطابق فیصلے میں مدد مل سکے ورنہ موجودہ حالات اور کمزور معیشت کے ہوتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور چودہ مئی کو انتخابات نہ ہونے کی صورت میں ایسے خطرناک بیانات جاری نہیں کر سکتا۔ یہ صریحا لوگوں کو بھڑکانے والی بات ہے۔ عمران خان یہیں رکتے نہیں بلکہ وہ انتخابات کے حوالے سے مذاکراتی عمل پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں انہوں نے شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کو کہا کہ اگر حکومت فوری اسمبلی توڑ کر الیکشن کرانا چاہتی ہے تو ہی بات کریں، اگر وہ دوبارہ وہی ستمبر اکتوبر کی بات کرتے ہیں تو بات کرنےکی کوئی ضرورت نہیں، اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے، ایک دن الیکشن کرانے ہیں تو کرائیں، پارلیمنٹ نہیں آئین سپریم ہوتا ہے۔
جب ایسے بیانات نظر سے گذرتے ہیں تو پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ انتخابات کے معاملے پر مذاکرات صرف اور صرف نظر کا دھوکہ ہیں کیونکہ کوئی بھی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور یہ معاملہ صرف پاکستان تحریک انصاف تک نہیں رہتا بلکہ ایسے ہی رویے دوسری طرف بھی ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی مذاکرات کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر یہ جماعتئں مذاکرات کرتی بھی ہیں تو ان کا مثبت نتیجہ نکلنا ذرا مشکل ہے ۔ دراصل مسئلہ آئین کا نہیں ہے۔ یہ سب آئین کے نام پر اپنی سیاست کر رہے ہیں آئین کا نام لے کر اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آئین کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ فوجی حکمران کوویسے ہی آئین شکنی کے طعنے ملتے ہیں سیاسی حکمران بھی کچھ کم نہیں کرتے فرق صرف اتنا ہے کہ فوجی حکمران آئین کے پیچھے نہیں چھپتے جب کہ سیاسی حکمران آئین شکنی بھی کرتے ہیں اور آئین کے پیچھے چھپتے بھی رہتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری سے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ملاقات کی ہے۔ امریکی سفیر نے فواد چوہدری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات کی تصویر فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری نے ٹوئٹ کی ہے۔ ڈونلڈ بلوم اس ملک کے سفیر ہیں جن پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بلکہ قوم کو یہ بتایا جاتا رہا کہ امریکی مداخلت پر ہی عمران خان کو گھر بھیجا گیا ہے اب ان کے ساتھ تو خوشی خوشی تصاویر جاری کی جاتی ہیں لیکن سیاسی قیادت آپس میں بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکی سفارتخانے میں ہونے والی افطار پارٹی میں بھی سب سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی اور ایک ہی جگہ نظر بھی آئے لیکن جب اپنے ملک کے لیے بات کرنا ہوتی ہے تو سب کے انداز بدل جاتے ہیں۔ سب ہی نظام کو لپیٹنے اور اپنے ہی اداروں کو نامناسب انداز میں پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔
ملک میں امن و امان کو خطرہ لاحق ہوا تو ملکی دفاع کے ضامن ادارے کسی بھی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ آج ملک میں ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر امن قائم ہوا ہے کیا اس پرامن فضا کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس معاملے میں سب کو اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے۔ دشمن ہمیں ہر لحاظ سے دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ہم اپنے ہی امن کے دشمن بنے بیٹھے ہیں ۔ یاد رکھیں جن کے پاس طاقت ہے انہیں ملک کی حفاظت کرنا آتی ہے اور کسی بھی ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے کی کوشش کی اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے جو کوئی بھی ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا وہ ملکی ترقی کا دشمن ہی سمجھا جائے گا۔ پاکستان میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام ملک دشمنوں کی خواہش ہے اور خواہش کو ناکام بنانے کےلئے تمام ملک دوست طاقتوں نے مل کر کام کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں مختلف سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ مختلف خیالات ہوتے ہیں لیکن عمومی طور پر مثبت سوچ رکھنے والے ہیں۔ موجودہ حالات میں سب سے بہتر اور تعمیری سوچ کے حامل افراد کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دان اپنے ووٹرز کو قانون شکنی پر ابھار رہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور امن دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کے سفر میں ہر روز قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے شہر لکی مروت میں سیکیورٹی فورسز نے مختلف مقامات پر دہشت گردوں کے تین حملے پسپا کر دیئے اور جوابی کارروائی میں سات دہشت گرد مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق لکی مروت میں سکیورٹی فورسز کی چوکی کے قریب موٹر سائیکل سوار خودکش حملہ آور نے دھماکا کیا جس کے بعد سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ فائرنگ کے تبادلے میں چار دہشتگرد مارے گئے، اس کے علاوہ امیر کلام اور تجبی خیل میں کارروائی میں مزید تین دہشت گرد ہلاک ہوگئے جن میں دہشتگرد کمانڈر موسیٰ خان بھی شامل ہے۔ دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں تین سیکیورٹی اہلکار نائب صوبیدار تاج میر، حوالدار ذاکر احمد اور سپاہی عابد حسین شہید ہوئے ہیں۔ جوان روزانہ شہید ہو رہے ہیں کاش سیاسی قیادت نفرت انگیز بیانات جاری کرتے ہوئے شہدا کی قربانیوں کو ہی دیکھ لے۔