میاں شہباز شریف کے جیل سے باہر آتے ہی ملکی سیاست میں عجیب سا ٹھہرائو محسوس ہو رہا ہے، حکومت کے خلاف چلنے والا طوفان تھم سا گیا ہے، یوں تو سیاست کے رنگ بھی عجیب ہوتے ہیں لیکن یہ بہت تیزی سے بدلتے ہیں، اب لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کے میدان میں آنے کے بعد سیاست کا کون سا رنگ غالب آئیگا۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کس ردعمل کا اظہار کرے گی؟ حکومت کے خلاف تحریک کی قیادت کون کریگا؟ پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ مریم نواز ملک سے باہر کب جا رہی ہیں؟ کیا مسلم لیگ (ن) سے (ش) الگ ہو سکتی ہے؟ شریف فیملی کا اتحاد ٹوٹنے والا تو نہیں؟ شریف فیملی کے اتحاد اور چھوٹے بڑے کے احترام کے تو سب قائل ہیں، مشاہدے میں آیا ہے کہ میاں شہباز شریف نے کبھی بھی میاں نواز شریف کی کسی بات سے انکار یا ان کے فیصلے سے اختلاف انکے سامنے نہیں کیا، انہوں نے اپنا اختلاف رائے بھی انتہائی احترام کے ساتھ کسی دوسرے کے ذریعے بڑے بھائی تک پہنچایا۔پرویز مشرف جیسے آمر نے شہباز کو وزیراعظم بنانے کی آفرز کیں اور ملک واپس آنے کی اجازت بھی دے دی مگر انھوں نے اپنے بڑے بھائی کا ساتھ چھوڑنے سے صاف انکار کردیا حال ہی میں شہباز کا انٹرویو آپ سن ہی چکے ہونگے جس میں انھوں نے بتایا نہ صرف میرا وزیراعظم بننا طے ہو چکا تھا بلکہ کابینہ بھی فائنل ہو چکی تھی۔ شنید ہے کہ وزارت عظمی کی کرسی کو ایک مرتبہ پھر بھائی کے احترام میں ٹھوکر ماردی۔ تیسرا چانس بھی ان ہاوس تبدیلی کا گنوا دیا اور سنگھاسن پر بیٹھنے کی بجائے پابند سلاسل ہونا پسند کیا۔ انکے اس احترام کے جذبے اور بڑوں کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرنا اور اپنے خاندان کیلئے قربانی دینا حمزہ شہباز میں بھی اس شدت سے موجود ہے جو انکے والد میاں شہباز شریف میں اپنے خاندان کیلئے موجود ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب پوری فیملی کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی تو حمزہ شہباز بطور ضمانت ملک میں موجود رہے ‘خاندان اور کاروبار کے سارے معاملات بھی چلاتے رہے اور جیل بھی کاٹی مگر آج تک انکی زبان سے کسی نے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں سنا، اب بھی وہ طویل عرصہ جیل میں گزار کر باہر آئے ہیں مگر وہ ایسے ہی مطمئن نظر آتے ہیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو، یہ خصوصیت صرف میاں شہباز شریف یا حمزہ شہباز میں ہی نہیں پائی جاتی میاں نواز شریف کے دل میں بھی اپنے خاندان کی بڑی قدر ہے، اپنے بڑوں کی عزت و احترام وہ کس حد تک کرتے تھے اسکی اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب وہ پنجاب کے وزیر خزانہ تھے تو جنرل ضیاء الحق کی زیر قیادت صوبائی وزرائے خزانہ کے اجلاس میں نواز شریف بار بار گھڑی پر نظر ڈالتے تھے، یہ بات جنرل ضیاء الحق کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ینگ مین کیا آپ نے گھڑی نئی لی ہے، جنرل ضیاء الحق کی ناراضگی کے باوجود میاں نواز شریف وقت دیکھتے رہے اجلاس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنے ایم ایس سے کہا کہ ان سے پوچھیں کہ میرے منع کرنے کے باوجود کیوں بار بار وقت دیکھتے رہے، میاں نواز شریف نے انہیں بتایا کہ انہوں نے اپنے والد میاں شریف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس انکے ساتھ جائیں گے مگر اجلاس طویل ہو رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ والد صاحب انتظار کر رہے ہوں گے، جنرل ضیاء الحق یہ بات سن کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو C130 پر لاہور بھیج دیا۔
میاں نواز شریف کی یہ ادا جنرل ضیاء الحق کو بہت پسند آئی اور انہوں نے میاں نواز شریف کو پھر بہت قریب کر لیا، یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد صرف اس نتیجے پر پہنچنا تھا اور جو لوگ شریف فیملی کے خاندانی سٹرکچر اور رویوں کو نہیں جانتے وہ اندازہ کر لیں کہ نہ تو (ن) سے کبھی (ش) الگ ہو گی نہ ہی ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف پیدا ہو سکتا ہے، ہاں سیاسی حکمت عملی کے تحت کبھی مریم نواز کی جارحانہ سیاست فرنٹ فٹ پر آ جاتی ہے تو وقت کے تقاضے بدلتے ہی میاں شہباز شریف کے مصالحانہ کردار کو آگے کر دیا جاتا تاہم شریف خاندان کی سیاسی بساط میں تمام مہرے میاں نواز شریف کے فیصلے کے تحت ہی اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں، قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں حقیقی اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف موجود ہونگے اور ایکٹنگ اپوزیشن لیڈر شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال پس منظر میں چلے جائینگے۔
میاں شہباز شریف اپوزیشن کو دوبارہ متحد کرنے کی پوری کوشش کرینگے پی ڈی ایم اپنی اصلی صورت میں دوبارہ فعال ہونے کا امکان ہے، اسی لئے مریم نواز کا پیپلز پارٹی کے حوالے سے نرم لہجہ اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ایک اور موقع دینا اس موقف کو تقویت دیتے ہیں حکومت کیخلاف تحریک میں بھی شاید چند ہفتے پہلے والی شدت نظر نہ آئے میاں شہباز شریف اور (ن) لیگ حکومت گرانے کے حق میں ہی نہیں، مریم نواز کا یہ کہنا کہ حکومت پانچ سال پورے کرے، ظاہر کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن بھی مفاہمانہ ہو گی، پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانا تو مشکل تھا ہی نہیں پیپلز پارٹی کی عدم اعتماد دلانے کی باتوں کی حقیقت تو جہانگیر ترین نے پوری طرح عیاں کر دی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو بھی شاید اندازہ تھا پیپلز پارٹی عدم اعتماد کی باتیں کیوں کر رہی ہے مگر مسلم لیگ (ن) نے حکومت گرانے کی کسی کوشش کا ساتھ نہیں دیا آنے والے دنوں میں حکومت کیلئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، میاں نواز شریف ابھی لندن میں اپنے علاج پر توجہ دیں گے میاں شہباز شریف مفاہمانہ اپوزیشن کریں گے مریم کا ٹوئٹر بھی وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہے گا، پھر مناسب وقت پر وہ اپنے والد سے ملنے اور اپنا علاج کرانے بیرون ملک بھی جا سکتی ہیں آخری بات یہ کہ تحریک انصاف اور اس کی قیادت احتساب احتساب احتساب کے نعرے لگاتی رہے گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024