پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ والے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے بعد ایک دوسرے کی سیاست پر تنقید کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر رجوع کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ کوششیں شہباز شریف کی واپسی سے شروع ہوئی ہیں وہ باہر آئے ہیں تو سیاسی قوتوں کو جمع کر کے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ چونکہ اس سے پہلے مریم نواز شریف ان معاملات کو لیڈ کر رہی تھیں شہباز شریف کے باہر آنے طاقت کا توازن اور فیصلہ سازی میں تبدیلی کا امکان موجود تھا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی واپسی کی گفتگو میں شہباز شریف کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے مریم نواز شریف پی ڈی ایم کو ذاتی مفادات کے لیے ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ان کی سیاست کا مرکز و محور میاں نواز شریف ہیں اور وہ ہر حال میں میاں نواز شریف کو بچانے کی سیاست کرنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ ہر حد تک جانے کو تیار ہیں ان کے اسی رویے کی وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے اختلاف پیدا ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کو شوکاز بھیجنے کا فیصلہ بھی غپط تھا۔ ایک تحریک میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کو شوکاز بھیجنا شروع کر دیں تو تحریک کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ساری کارروائی مریم نواز کے گروپ کی مفاداتی سیاست کی وجہ سے ہوئی لیکن اب یہ سیاسی جماعتیں دوبارہ ایک جگہ اکٹھے ہونے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ خبر ہے کہ شہباز شریف کی مداخلت پر پاکستان مسلم لیگ نون نے پیپلز پارٹی کی پاکستان ڈیمو کریٹک میں واپسی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ شہباز شریف کی طرف سے ملنے والی ہدایات کے باعث لیگی رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اتحاد میں واپسی کی کھل کر مخالفت نہیں کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی جانتی ہے کہ وفاق پر دباؤ بنائے رکھنے اور کہیں نہ کہیں ہلکی پھلکی رعایت کے لیے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سیاست ضرور ہوتی رہنی چاہیے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اپنے میدان پر کسی دوسرے کو کھیلنے کی اجازت نہیں دینا چاہتی۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین جانتے ہیں کہ انہوں نے سیاسی عمل اور اقتدار سے اپنا حصہ کیسے وصول کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مریم نواز شریف کی خواہش کے مطابق اپوزیشن کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی تھی کہ وہ حکومتی پالیسیوں کے مخالف ضرور ہیں لیکن اس مخالفت کے باوجود وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو سیاسی فائدہ نہیں دینا چاہتے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے مکمل جمع تفریق کر رکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ کس کی مخالفت کرنی ہے اور کس حد تک مخالفت کرنی ہے۔ مریم نواز شریف کی اڑان دیکھتے ہوئے انہوں نے میاں نواز شریف کو وطن واپسی کی دعوت دی تھی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے۔ بس اصف زرداری کے اس بیان کے بعد راستے جدا ہونا ہی تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن تو کرنا چاہتی ہے لیکن وہ مریم نواز شریف اور ان کے چند ہم خیالوں کی طرح ریاستی اداروں کے ساتھ دشمنی یا مزاحمت کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اندازہ ہے کہ ملک میں سیاست کے لیے کن پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ وہ اپنے سیاسی نقطہ نظر پیش بھی کرتے رہتے ہیں اور سٹیک ہولڈرز کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کرتے جب کہ مریم نواز شریف کی خواہش اس کے برعکس تھی وہ چاہتی ہیں کہ جیسے وہ اعلانیہ ریاستی اداروں کو نشانہ بنا کر انتشار پھیلا رہی ہیں ان کی تقلید میں تمام سیاسی جماعتیں یہی کام کریں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ناصرف یہ کام کرنے سے انکار کیا بلکہ نون لیگ کے ایک مخصوص گروہ کو واضح انداز میں اپنے کام سے کام رکھنے کا پیغام بھی دیا۔ پیپلز پارٹی نے کسی کے سیاسی کھیل میں کھلاڑی بننے سے بھی انکار کیا تھا۔ اب شہباز شریف کی واپسی کے بعد پی پی پی کی واپسی پر بات شروع ہوئی ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی واپسی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن کرے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی پیپلزپارٹی کی واپسی کیلئے رابطے شروع کر دیے ہیں وہ پی ڈی ایم کے قائدین کو قائل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ نون لیگ نے تو رضامندی ظاہر کی ہے لیکن اتحاد میں شامل اختر مینگل، بی این پی بزنجو اور محمود خان اچکزئی نے بھی آمادگی ظاہر کر دی ہے البتہ اویس نورانی اور پروفیسر ساجد میر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نمبرز کے اعتبار سے پیپلز پارٹی کی واپسی کے لیے میدان تیار ہو چکا ہے۔ مخالفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ جانتی ہیں کہ نظام چلتے رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ بھی جانتی ہیں کہ حزب اختلاف کا اتحاد تو صرف سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے ہے حقیقت میں سب اپنے اپنے مفادات اور سیاسی مستقبل کو دیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں اکٹھے رہنے کا یہ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی سہولت یا رعایت مل سکتی ہے اکٹھے رہنے کی اس سے بہتر کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں واپس آتی ہے تو حکومت پر سیاسی دباؤ تو ضرور آئے گا دوسری طرف جہانگیر ترین کی مخالفت کو بھی سیاسی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان کے ساتھ اچھی تعداد میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی موجود ہیں یہ لوگ بھی سیاسی طور پر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں بالخصوص اگر پنجاب کی سطح پر وہ مسلم لیگ ق کے ساتھ مل جاتے ہیں تو حکومت کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت ہر طرح کے اتحاد کا مقابلہ صرف کارکردگی سے ہی کر سکتی ہے اور یہ کام حکومت ڈھائی سال سے نہیں کر سکی۔ اس طرح کے سیاسی حالات میں نہ تو بہتر قانون سازی ہو سکتی ہے نہ عوامی فلاح و بہبود پر توجہ رہتی ہے۔ اپوزیشن متحد ہو گی تو وہ حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے مشترکہ موقف اختیار کرے گی پھر حکومت کے اندر سے ہونے والی مخالفت کے بعد سیاسی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور بیانات کا جواب دینے میں مصروف رہیں گی اور یونہی وقت گذرتا جائے گا عام آدمی نظر انداز ہوتا رہے گا اور جمہوریت چلتی رہے گی۔ اس مشق کا نتیجہ عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38