NA149میں پی ٹی آئی ن لیگ آمنے سامنے
امین یوسف
قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 کے ضمنی انتخابات کو شیڈول کے مطابق آج ہونے جارہے ہیں، جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت کے بعد مسلم لیگی امیدوار مفتاح اسماعیل کی کامیابی کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت پر پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہو سکتے۔بلدیہ ٹاؤن کراچی کا پسماندہ علاقہ ہے جہاں بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ پینے کے پانی کی قلت، بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ،گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیںاور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی نے علاقے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ویسے تو کراچی کے زیادہ تر علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں لیکن بلدیہ ٹاؤن کے حالات کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہیں۔پنجاب میںڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے بعد، این اے ے249 میںلیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے مابین اختلافات کے بعد پیپلز پارٹی نے درخواست کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے حق میں اپنے امیدوار کو واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔حالانکہ اس کے لئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی میں پیپلز پارٹی اعلیٰ قیادت سے ملاقات بھی کی۔این اے 249 کی نشست تحریک انصاف فیصل واووڈا کے استعفیٰ کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔انہوں مسلم لیگ کے امیدوار میاں شہباز شریف کو صرف720ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔2018کے عام انتخابات میں اس حلقے میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 31ووٹ ڈالے گئے تھے جس میں فیصل واووڈا صرف 35ہزار 349 ووٹ حاصل کرپائے جبکہ میاں شہبا ز شریف جو کراچی سے پہلی مرتبہ کسی انتخاب میں حصہ لے رہے تھے نے 34ہزار 629ووٹ حاصل کئے۔
الیکشن کمیشن نے این اے 249 کے ضمنی انتخابات میں تاخیر سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست قبول نہیں کی حلقہ کے، ضلعی ریٹرننگ افسر ندیم حیدر نے تصدیق کی تھی کہ الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی جانب سے این اے 249 کے ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے دوران کورونا وائرس ایس او پیز کو سختی سے نافذ کرنے کا حکم دیا ۔ کورونا وائرس ایس او پیز کے نفاذ کے لئے خصوصی عملہ بھی تعینات کیا جائے گا۔حکومت سندھ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں این اے 249 کے ضمنی انتخاب کو کورونا وائرس وبائی امراض کی تیسری لہر کے خاتمے تک ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔صوبائی حکومت کا موقف تھا کہ پاکستان کے بیشتر شہر کورونا وائرس کی گرفت میں ہیں، انفیکشن اور اموات کے اعدادوشمارخوفناک ہیں۔
دوسری جانب، مسلم لیگ ن نے بھی الیکشن کمشن کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے، جس میں اپیل کی ہے کہ وہ حکومت سندھ کی جانب سے ضمنی انتخاب ملتوی کرنے کی درخواست کو قبول نہ کرے۔انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی یا اس کی التوا کا کوئی بھی امکان ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوگا۔این اے 249 کی آبادیوںمیں زیادہ تر پنجابی، پشتون،سرائیکی اور اردو بولنے والے مقیم ہیں۔ اس میں ایک مضبوط مذہبی ووٹ بینک بھی ہے۔پھر، اس علاقے میں مختلف قبائل جیسے محسود ،آفریدی کشمیری اور ہزارہ کے لوگوں کی اپنا اثر رسوخ ہے۔2018 کے انتخابات سے قبل یہ حلقہ این اے ۔239 کہلاتا تھا ۔ جہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار مرحوم اعجاز شفیع دو مرتبہ کامیاب ہوئے ۔ تاہم جب ملک میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا تو اس حلقے کو 249 میںتبدیل کر دیا گیا۔2018 کے عام انتخابات میںایک اور حیرت انگیز عنصر یہ تھا کہ نئی جماعت تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے حق میں ووٹ ڈالے گئے، جن کے امیدوار مفتی عابد مبارک نے 23ہزار سے زائدووٹ حاصل کیے جبکہ ایم کیو ایم پی کے امیدوار اسلم شاہ کو ساڑھے 13 ہزار ووٹ ملے تھے ۔ پیپلز پارٹی کے سید عطا اللہ سبحان 10ہزارووٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے تھے۔اس نشست پر 2018 میں پی ایس پی کے امیدوار کو صرف 1ہزار600 ووٹ ملے تھے۔اگر ہم عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے، موجودہ ضمنی انتخاب کا موازنہ کریںتو اس مرتبہ صورتحال تھوڑی سی مختلف ہے۔گذشتہ عام انتخابات میں یہاں سے کامیابی حاصل کرکے وفاقی وزیر بننے والے فیصل واوڈا نے اس حلقے پر کوئی توجہ نہیں دی اور بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ان کی جماعت ضمنی انتخاب کے موقع پر اندرونی اختلافات کا شکارنظر آئی جبکہ صوبہ کی حکمراں جماعت بھی کوئی قابل ذکر انتخابی مہم نہ چلا پائی۔ ضمنی انتخابات میںتحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، تحریک لبیک اور مسلم لیگ کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی بھی میدان میں ہے جہاں اس کے چیئرمین مصطفی کمال خودسرگرمی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور مختلف حلقے ان کی کامیابی کے دعوے بھی کررہے ہیں۔دوسری جانب کالعدم تحریک لبیک بھی ایک مضبوط دعویدار ہے، چونکہ اس حلقے میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی، اسی علاقے سے ٹی ایل پی کے امیدوار نے صوبائی نشست اپنے نام کی تھی۔الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی ایک سیاسی جماعت کے طور پر ہی میدان میںہے کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جاسکتا ،جب تک حکومت سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرے اور وہاں سے کوئی فیصلہ نہ آجائے۔ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والوں میں ایک اہم نام مسلم لیگ ن کے فرنٹ لائن رہنما مسلم لیگ (ن) کے ایک تجربہ کار رہنما، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہیںجنہوںنے حلقے میں منفرد مہم چلائی اور ووٹ ڈالنے کی یکسانیت کو ختم کرنے کے لئے انتخابی نشان والے بال پوائنٹ ،بلیک اینڈ وائٹ چہرے والی کینڈی متعارف کروائی ۔مسلم لیگی امیدوار کو عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کی مکمل حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق این اے 249 ایک اہم مقابلہ ہوسکتا ہے، لیکن اصل سیاسی لڑائی آئندہ ہونے والے انتخابات میں ہوگی۔ضمنی انتخاب کے لئے حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5لاکھ91 ہزار339 ہے جن میںسے6لاکھ 56ہزار مرد اور ،9لاکھ 35 ہزا 796 خواتین ہیں۔یہاں 276 پولنگ اسٹیشن قا ئم کیے جائیں گے۔جیتنے کے دعوے ہر جماعت کررہی ہے لیکن اصل صورتحال اس وقت سامنے آئی گی جب امیدواررائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے کے قابل ہوجائیںانہیں گھروں سے کون کتنی بڑی تعداد میں نکال پائے گا اس کا آج صبح عمل مظاہرہ ہو جائے گا۔ اس ضمنی انتخاب کے چند ایسے پہلو بھی ہیں جن پر غور کرنا سیاسی جماعتوں کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ایک تو انتخاب رمضان کے مہینے میں ہورہا ہے دوسرے کراچی میں ان دنوں موسم بھی گرم ہے۔کورونا کا خوف اپنی جگہ موجود ہے، یہ ایک ایسا حلقہ ہے جہاں اکثریت محنت کش طبقے کی ہے جن کو روزگار کے لئے گھر سے نکلنا ہو گا حالانکہ صوبائی حکومت نے اس دن علاقے میں چھٹی کا اعلان کر رکھا ہے۔