عمران حکومت کا تسلسل وقت کی مجبوری بن چکا ہے۔ یہ حقیقت مگر جہانگیر ترین اور ان کی حمایت میں جمع ہونے والے دیکھنے سے انکاری ہیں۔ وزیر اعظم سے منگل کے روز ہوئی ملاقات کے بعد خوش گمانی پر مبنی کہانیاں پھیلارہے ہیں۔میری اطلاع کے مطابق انہیں ’’رعایت‘‘ فقط اتنی ملی ہے کہ بیرسٹر علی ظفر سے ان تمام مقدمات کا جائزہ لینے کی درخواست ہوگی جو جہانگیر ترین کے خلاف بنائے گئے ہیں۔ ان میں ’’زیادتی‘‘ دریافت ہوئی تو کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی؟اس سوال کے بارے میں میرا راوی خاموش رہا۔
جہانگیرترین کو البتہ یہ دعویٰ کرنے کی سہولت میسر ہوجائے گی کہ ان کی جانب سے رحم کی فریاد نہیں ہوئی۔ان کے دوست اس حکومت کے ہاتھوں بنائے مقدمات کے بارے میں ازخود پریشان تھے جسے لانے میں جہانگیر ترین نے کئی برس دن رات ایک کردئیے۔ اپنے وسائل کو دل کھول کر خرچ کیا۔ایک طیارے کی آنیاں جانیاں بھی اس حوالے سے بہت رونق لگاتی رہیں۔ ’’دوستوں‘‘ کی خواہش تھی کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے مابین بدگمانیوں کا خاتمہ ہو۔اپنے تئیں اگرچہ ترین صاحب عدالتوں کے روبرو ہی خود کو بے گناہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔
’’بے رحم اور کڑا احتساب‘‘ عمران خان صاحب کی سیاست کا کلیدی نعرہ رہا ہے۔ان کے ہزاروں بہی خواہ آج بھی بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا قانونی اور عدالتی ڈھانچہ فوری انصاف کی راہ میں بے تحاشہ رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔سیٹھوں پر مشتمل ’’مافیا‘‘ کو بہترین اور مہنگے ترین وکلاء کی معاونت بھی فراہم ہوجاتی ہے۔ وہ احتساب سے متعلق بنائے قوانین میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا تحفظ یقینی بنالیتے ہیں۔عمران خان اس کی وجہ سے خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔اہم بات مگر یہ ہے کہ ’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘۔
اپنے بہی خواہوں کی اس سوچ کو مضبوط تر بنانے کے لئے عمران خان ’’میں NROنہیں دوں گا‘‘ والا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں۔جبلی طورپر وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ’’کڑے احتساب‘‘ کے عہد پر کاربند رہنے کی وجہ سے اگر ان کی جماعت میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔وہ قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوگئے تو حکومت سے فراغت کے بعد بآسانی اپنے بہی خواہوں کو اس امر پر قائل کردیں گے کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ نے باہم مل کر ان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا۔ نئے انتخاب کے دوران یہ سوچ تحریک انصاف کے بہت کام آئے گی۔ شاید وہ اس کی وجہ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ حکومت بنالے گی۔
میں ذاتی طورپر مذکورہ بالا سوچ سے متفق نہیں۔دُنیا بھر میں منتخب حکومتوں سے Feel Goodماحول بنانے کی امید باندھی جاتی ہے۔ اگست 2018میں قائم ہونے والی عمران حکومت یہ ماحول بنانے میں ناکام رہی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ دریں اثناء کرونا کی تیسری لہر بھی بہت شدت سے نازل ہوگئی۔ ایسے حالات میں ’’احتساب-احتساب‘‘ کا ورد عام لوگوں کی روزمرہّ زندگی کے حوالے سے اُمید بھرے پیغامات نہیں دیتا۔ سیاست دان مگر مجھ جیسے قلم گھسیٹ افراد کے تجزیے پر انحصار نہیں کرتے۔ عمران خان صاحب بھی اپنے ذہن میں آئی سوچ پر قائم رہیں گے۔ اپنے حامیوں کی نگاہ میں ’’بلیک میل‘‘ ہوتے نظر نہیں آئیں گے۔
حکمرانوں کی چاپلوسی کے نسلوں سے عادی شاہ محمود قریشی کو عمران خان صاحب کے دل ودماغ میں شدت سے جاگزیں ہوئی سوچ کا بخوبی علم ہے۔اسی باعث جہانگیر ترین کے حامیوں سے وزیر اعظم سے ملاقات سے ایک روز قبل انہوں نے عمران خان صاحب کی موجودگی میں ایک دھواں دھار تقریر فرمائی۔اس کے ذریعے انہوں نے نہایت حقارت سے اصرار کیا کہ تحریک انصاف کے انتخابی نشان یعنی بلے نے ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ لکیر کے ایک طرف ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں اور دوسری جانب ’’صاف ستھری سیاست‘‘ کے خواہاں افراد۔بلے کے انتخابی نشان کی بدولت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والے افراد کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ لکیر کے کس جانب کھڑے ہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے دھواں دھار خطاب کو عمران خان صاحب کی بدن بولی نے واضح انداز میں سراہا۔ جہانگیر ترین کے حامیوں سے ملاقات سے قبل ہی پیغام مل گیا کہ ’’وہ کیا لکھیں گے جواب میں‘‘۔
جہانگیر ترین کی حمایت میں جو گیارہ اراکین قومی اسمبلی عوام کے روبرو آئے ہیں ان کے علاوہ بھی دس سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل ایک اور گروپ بھی ہے جو بلے کے انتخابی نشان پر منتخب ہوا تھا۔ یہ گروپ بھی عمران خان صاحب سے ناراض ہے۔ جہانگیر ترین کے حامیوں کے ساتھ مل کر ’’فارورڈ بلاک‘‘ نامی شے بھی بناسکتا ہے۔اس بلاک کا حتمی ہدف لیکن عمران خا ن صاحب کو تحریک عدم اعتماد وغیرہ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹانا ہی ہوسکتا ہے۔نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ مگر اس کے لئے تیار نہیں ہے۔نواز شریف کا ’’بیانیہ‘‘ عوام میں مقبول ہو یا نہیں مگر ان کے نام سے منسوب جماعت میں موجود ’’معتدل اور تجربہ کار‘‘ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثریت بھی اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے اِن ہائوس تبدیلی کے ذریعے ہٹانے کے بعد ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ پرمبنی حکومت مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کا کماحقہ حل ڈھونڈ نہیں پائے گی۔موجودہ اسمبلی کے قیام کو ویسے بھی تین برس گزرنے والے ہیں۔مزید دو برس انتظار کرلینا ہی مناسب ہوگا۔ مختصراََ وہ ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے لئے تیار نہیں۔ایسے میں تحریک انصاف میں ہوئی بغاوت کی بدولت قائم ہوا ’’فارورڈ بلاک‘‘ کار بے سود نظر آتا ہے۔ ’’فارورڈ بلاک‘‘ بنانے کے متمنی افراد کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوگا کہ ان کی ’’بغاوت‘‘‘ منظر عام پر آئی تو وفاقی اور صوبائی حکومت ان کے خلاف آئی ایف اے اور اینٹی کرپشن کے اداروں کو متحرک کردے گی۔چپ کرکے ’’دڑ وٹنے‘‘ہی میں لہٰذا عافیت ہے۔عمران خان صاحب کو ان کی مجبوریوں کا بخوبی علم ہے۔ اسی باعث اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔عثمان بزدار کی حمایت میں حال ہی میں ہوئی ان کی تقریر ’’ضد‘‘ کا بھرپور اظہار تھی۔یہ ضد ہی عمران حکومت کے تسلسل کا اصل سبب ہے۔
حکومتوں کا آنا جانا میرے اور آپ جیسے دیہاڑی داروں کے لئے اہم نہیں ہوتا۔سیاست پر نگاہ رکھنا مگر میری پیشہ وارانہ مجبوری ہے۔اس حیثیت میں موجودہ سیاسی منظر نامے پر توجہ مرکوز کرتا ہوں تو جی واقعتا گھبرا جاتا ہے۔پیغام ملتا ہے کہ پاکستان کو داخلی اور خارجہ امور کے حوالے سے جن سنگین ترین اور ممکنہ طورپر بحرانوں کے باعث مسائل کا سامنا ہے ان کا برملا ذکر کرنے کو بھی ہمارے سیاست دانوں کی بے پناہ اکثریت تیار نہیں ہے۔ ان کا حل ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات ہے۔لاتعلقی کا یہ رحجان دُنیا بھر کے کئی ممالک میں بالآخر ایسی فضا بنادیتا ہے جسے انگریزی میں نظام کا Implodeکرنا پکارا جاتا ہے۔میں اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے اُردو کا مناسب لفظ ڈھونڈ نہیں پایا۔ حکمران اشرافیہ کی اکثریت نے لاتعلقی کا جو رویہ اختیار کررکھا ہے وہ اگرچہ دل کو ہمہ وقت دہلائے رکھتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024