حکومت مصنوعی مہنگائی کا خاتمہ اور پٹرولیم نرخوں میں کمی کرکے عوام کو مزید ریلیف دے سکتی ہے
کرونا چیلنج! بے روزگاروں اور چھوٹے کاروبار والوں کیلئے نئے امدادی پیکیجز کی منظوری
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملازمتوں اور کاروبار سے متعلق دو پیکیجز کی منظوری دے دی۔ بے روزگار ہونیوالے افراد کیلئے 75‘ ارب روپے کا پیکیج منظور کیا گیا۔ اسکے تحت بے روزگار ہونیوالے افراد خود کو پورٹل پر بذریعہ سمارٹ فون انٹرنیٹ رجسٹرڈ کرائیں گے جنہیں 12 ہزار روپے فی کس ادا کئے جائینگے۔ دوسرے پیکیج کے تحت چھوٹے کاروبار والوں کا تین ماہ کا بل حکومت ادا کریگی‘ اس طرح 80 فیصد صنعتیں بل ادائیگی کے سلسلہ میں مستفید ہوں گی۔ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار بیرسٹر حماداظہر نے رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ احساس پروگرام اور وزارت صنعت و پیداوار پورٹل لانچ کریگی۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان کے چھ کروڑ گھرانوں میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ گھرانوں تک امداد پہنچائے گی۔ انکے بقول کرونا وائرس کے باعث نافذ لاک ڈائون سے متاثر ہونیوالے چھوٹے تاجروں کیلئے 60‘ ارب روپے کا ’’وزیراعظم چھوٹا کاروبار‘‘ امدادی پیکیج منظور کیا گیا ہے جبکہ ملازمت سے نکالے جانیوالے افراد اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدورں کیلئے 75‘ ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دی گئی ہے۔ اس سے پاکستان میں 35 لاکھ کاروبار مستفید ہونگے۔ یہ پیکیج آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی لاگو ہوگا اور اس سے کراچی کی صنعتیں بھی مستفید ہو سکیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کا چھوٹا کاروباری امدادی پیکیج نافذالعمل ہونے کے بعد چھوٹے کاروباری افراد کو بلاضمانت قرض دینے کی سکیم لائی جائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ پورٹل پر ڈیٹا موصول ہونے کے بعد فی کس 12 ہزار روپے چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد میں تقسیم کئے جائینگے۔
یہ امر واقع ہے کہ کرونا وائرس سے بچائو کیلئے لاک ڈائون کی شکل میں اٹھائے گئے احتیاطی اقدامات سے ہر شعبۂ زندگی متاثر ہوا ہے۔ لوگوں کے کاروبار بند ہوئے‘ روزگار چھن گئے‘ دیہاڑی داروں کیلئے عملاً فاقہ کشی کی نوبت آئی ہے اور بے روزگاری میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ کرونا وائرس دنیا بھر میں جس تیزی سے پھیلا ہے اور ابھی تک اس کا پھیلائو جاری ہے جس کے باعث کئی ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی کساد بازاری کا شکار ہوئی ہیں اور انکی سٹاک مارکٹیں کریش ہو گئی ہیں جبکہ ابھی تک غیریقینی کی صورتحال برقرار ہے کہ کرونا وائرس کب تک لاک ڈائون کا باعث بنا رہے گا۔ پاکستان کیلئے تو کم وسائل ہونے کے باعث اس تناظر میں اور بھی گھمبیر صورتحال پیدا ہوئی اور جزوی لاک ڈائون نے بھی ہماری اقتصادیات و معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔
وزیراعظم عمران خان کو ملکی وسائل کی بنیاد پر صورتحال کی سنگینی کا احساس بھی تھا اور وہ ممکنہ طور پر لوگوں کے بے روزگار اور فاقہ کشی کا شکار ہونے کے حوالے سے فکرمند بھی تھے اس لئے انہوں نے کرفیو جیسے سخت گیر لاک ڈائون سے گریز کی پالیسی اختیار کی‘ اسکے باوجود جزوی لاک ڈائون میں بھی عوام کیلئے روٹی روزگار کے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوگئے اور ہلکی اور بھاری صنعتوں سمیت لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہونا شروع ہوگئے۔ ان عوامی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم نے 12 سو ارب ڈالر کے خطیر امدادی پیکیج کا اعلان کیا جسے احساس پروگرام کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے اور اس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہونیوالے افراد کو 12 ہزار روپے فی کس ادا کئے جارہے ہیں۔ اس امدادی پیکیج سے ملک کے ایک کروڑ 20 لاکھ گھرانے مستفید ہو رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت نے عوام کو یوٹیلٹی بلوں میں بھی ریلیف دیا اور انہیں اپنے بل تین ماہ میں اقساط کے ساتھ ادا کرنے کی سہولت دے دی ہے جبکہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو بھی کرونا وائرس کے دوران فیسوں میں 20 فیصد کمی کا پابند کر دیا۔
اب جبکہ کرونا وائرس کا پھیلائو سنگین ہونے کے باعث ملک میں مکمل لاک ڈائون کی نوبت آنیوالی ہے جس کا سمارٹ لاک ڈائون کی صورت میں آغاز بھی کیا جاچکا ہے اس لئے عوام کے روٹی روزگار کے مسائل بھی مزید گھمبیر ہونگے‘ بے روزگاری پھیلے گی اور ممکنہ طور پر فاقہ کشی کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ چنانچہ کرونا وائرس کے چیلنج سے عہدہ برأ ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بے روزگاری اور فاقہ کشی کے چیلنج سے بھی نمٹنا ہے جس کیلئے وزیراعظم اور انکی مالیاتی ٹیم پوری طرح تیار اور مستعد ہے۔ گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس ممکنہ چیلنج سے نمٹنے اور عوام کو روٹی روزگار کے مسائل میں ریلیف دینے کے نکتۂ نظر سے ہی بے روزگاروں اور چھوٹے کاروبار والوں کیلئے دو الگ الگ پیکیج منظور کئے ہیں جبکہ پہلے امدادی پیکیجز پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔ اس سے حکومت کی نیک نیتی اور فکرمندی تو عیاں ہے تاہم پہلے امدادی پیکیجز پر عملدرآمد کے حوالے سے انکی شفافیت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور متعدد بے ضابطگیوں کے معاملات بھی سامنے آرہے ہیں جس میں احساس پروگرام کے تحت امدادی رقوم کی تقسیم کے طریق کار پر بھی تحفظات پیدا ہوئے ہیں کہ اس سے کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے سماجی روابط کم کرنے اور انسانی فاصلہ قائم کرنے کے تصور پر زد پڑی ہے۔ اسی طرح امدادی رقوم میں کٹوتی کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں جس سے حکومت کے انسانی ہمدردی والے نیک کام پر بھی حکومت مخالفین کی جانب سے انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ اسی طرح یوٹیلٹی بلوں کی اقساط کرنے کے معاملہ میں بھی متعلقہ محکموں کی بعض بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی ہے چنانچہ اب نہ صرف پہلے سے جاری امدادی پیکیجز کی شفافیت یقینی بنانا ضروری ہے بلکہ اصلاح احوال کے مؤثر اقدامات اٹھا کر حکومت کو بے روزگاروں اور چھوٹے کاروبار والوں کیلئے منظور کئے گئے دو نئے پیکیجز پر بھی شفاف طریقے سے عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ اس کیلئے جہاں ادارہ جاتی تعاون اور ہم آہنگی ضروری ہے‘ وہیں وفاق اور صوبوں کے مابین بھی باہمی تعاون اور ہم آہنگی کی مثالی فضا استوار ہونی چاہیے۔ ان امدادی پیکیجز کے ساتھ ساتھ مصنوعی مہنگائی کے سدباب کے مؤثر اقدامات اٹھانا بھی ضروری ہے اور عوام کو عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں انتہاء درجے کی کمی سے بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید کم کرکے ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلائو کے باعث آنیوالے حالات عوام کے اقتصادی مسائل بڑھنے کا عندیہ دے رہے ہیں جن سے ٹھوس اور مربوط حکمت عملی کے تحت ہی عہدہ برأ ہوا جاسکتا ہے۔