مصیبت پڑے تو لوگ گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔ جس سے ملنا منہ لگانا کسرِشان سمجھتے تھے پھر اُسی کے در پر حاضری دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اپنی اپنی باریاں لیں لیکن نیب کو گھر کی لونڈی سمجھ کر خاموش رہے۔ بھاری مینڈیٹ کے زعم نے نیب قانون کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ بُرا وقت زلزلے کی طرح ہوتا ہے۔ اپنی آمد کی پیشگی اطلاع نہیں دیتا۔ نہ ہی سائنس پہلے سے اس کی شدت کا پتہ دیتی ہے۔ عمران خان کا عروج دونوں پارٹیوں کو زوال کی طرف لے گیا، زندگی کے سرد و گرم سے آشنا کرا گیا۔ بھاری مینڈیٹ کیساتھ تین بار وزیراعظم کی شاہانہ مسند پر براجمان رہنے والے محمد نواز شریف کو کوئی بڑے سے بڑا نجومی اور پیر یہ نہ بتا سکا کہ میاں صاحب ایوان وزیر اعظم پر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ جے آئی ٹی اور احتساب عدالتوں کی لگاتار پیشیاں آپ کو نڈھال کردیں گی۔ آپ کے پاس صاحبِ اقتدار ہو کر اتنی فرصت نہ تھی کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ جیلوں کے دوروں کا تو کبھی خیال تک نہ آیا تھا اور پھر قدرت نے وہ دن دکھائے کہ اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیلوں کو اچھی طر دیکھ لیا اور پھر پاکستان بلکہ اپنے ہی شہر کے ان ہسپتالوں کو بھی دیکھ لیا جنہیں وہ اپنے لیے شایان شان نہیں سمجھتے تھے۔ مکافات عمل محض ایک لفظ نہیں ہے۔ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، ابھی بھی میاں صاحب کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھی ہے کہ انہیں شفائے کاملہ لندن میں گورے ڈاکٹر کے ہاتھوں نصیب ہو گی۔ اُن کے نزدیک سپریم کورٹ کا 6 ہفتوں میں صحت مند اور دوبارہ جیل جانے کے مفروضہ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ فرصت کے وہ دن بھی تھے جب وزیر اعظم نواز شریف باغ جناح میں کرکٹ کھیلنے کیلئے قیلولے اور ماڈل ٹائون میں کھلی کچہری کیلئے وقت نکالا کرتے تھے ، اب آزاد کی نسبت قیدی نواز شریف کو دیکھنا ناممکن ہے۔ اچھی خبر نیب قانون بدلنے پر اتفاق ہے۔ میاں شریف مرحوم نے اپنے فرزندوں کو پہلا قاعدہ ’’اتفاق‘‘ کا پڑھایا تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی گھر کی حد تک قاعدہ یاد رہا۔ اپوزیشن کے لیے اتفاق کا قاعدہ بھلا دیا آج بھی صاحبان اقتدار کے پاس اتفاق کا قاعدہ نہ گھر میں ہے نہ باہر۔ حکومت اور اپوزیشن کی نیب قانون میں تبدیلی کیلئے مجوزہ ترامیم سامنے آ گئی ہیں۔ فریقین میں رابطے ہوئے ہیں۔ نیب اصلاحات کا بل لایا جائے گا۔ دھوپ چھائوں روزمرہ کا معمول ہے۔ مفاد عامہ کی قانون سازی پر بھی مفاہمت ہوئی ہے۔ حکومت اپوزیشن کی عوامی عہدیدارکی نئی تعریف، چیئرمین کی تقرری کے نئے طریقہ کار، جسمانی ریمانڈ کی مدت میں کمی، پلی بارگین کی عدالتی اجازت لینے پر یکساں تجاویز سامنے آئی ہیں۔ اپوزیشن کی تجاویز ہیں۔ نیب کے پاس 50 کروڑ روپے سے کم کے کیس نہ جائیں، چیئرمین نیب کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کھلی سماعت کے بعد کرے، کوئی ریفرنس ایگزیکٹو بورڈ کی کلیئرنس سے پہلے فائل نہ کیا جائے، حکومتی ترامیم کے تحت نیب کا نیا نام نیشنل اکائونٹیبلٹی کمیشن NAC ہو گا، احتساب عدالت سے وارنٹ جاری ہونے کے بعد ہی کسی ملزم کی گرفتاری ہو گی۔ پلی بارگین یا رضا کارانہ واپسی ختم کر دئیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے خوش خبری دی ہے کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر تشکیل دینے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو ہر عمرہ حج کرنے والا جانتا ہے ریاست مدینہ کیسی ہے ، جہاں کی گلیوں سڑکوں بازاروں میں ٹشو پیپر کا ایک ٹکڑا بھی گرا دکھائی نہیں دیتا اور ہماری ممکنہ ریاست مدینہ میں پھولوں کے گملوں کی بجائے طول و عرض میں کوڑے کے اونچے اونچے ڈھیروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہماری ممکنہ ریاست اس لڑکی کی تلاش میں ہے جس نے عہد فاروقی میں اپنی ماں کو دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا تھا کہ عادل حکمران عمرؓ کا حکم یہی تھا۔ ماں نے کہا بیٹی زبان بند کر کیا عمرؓ ہمیں دودھ میں پانی ملاتے ہوئے دیکھ رہا ہے، جس پر متقی دختر نے برجستہ جواب دیا کہ عمرؓ تو نہیں عمر ؓ کا ربّ تو ضرور دیکھ رہا ہے۔ خدا کی ہر جگہ اور ہر وقت احساس رکھنے والے فرزند اور دختران کہاں ہیں اگر ہیں تو پھر ملک کے کسی کونے کھدرے میں ایک کلو دودھ بھی خالص نہیں ملتا۔ ریاست مدینہ کیلئے عمران خان اور پاکستانی عوام بالخصوص اشرافیہ کا ایک پیج پر ہونا ناگزیر ہے۔ یہ کسی اخبار کے ایڈیٹر کی ڈاک نہیں جس میں قاری کا ایڈیٹر سے ہم خیال ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ حکومت کا وزیر ہو یا مشیر 8 ماہ سے یہی کہتے چلے آئے اور چلے گئے کہ بحران عارضی ہے۔ یہی جملہ صدر عارف علوی نے دہرا دیا۔ انہوں نے تو عہد رسالتؐ کی بات کر ڈالی کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ صدر علوی یہ بھی بتا دیتے کہ مقابلہ بھارت سے کرنا ہو گا ، دشمنان اسلام سے کرنا ہو گا ، غربت سے کرنا ہو گا یا پھر گراں فروشوں ذخیرہ اندوزوں ، استحصالی قوتوں سے کرنا ہو گا۔ موبائل فون استعمال پر ٹیکس بحال ہو چکا ہے۔ 100 روپے کے کارڈ پر 75 روپے بیلنس مل رہا ہے۔ 40 فیصد حکومتی آمدن موبائل ٹیکس کی مرہون منت ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ ایسے میں ہمارا بھی تیل نکلے گا ۔ 8 ماہ سے حکومت معیشت میں اتار چڑھائو کا شکار ہے ، اسی پر اسد عمر شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان ادائیگیوں کے عدم توازن کے گرداب میں ہے، برآمدات منجمد، زرمبادلہ کے ذخائر کم اور پیداواری صلاحیتوں سے استفادہ برائے نام ہے۔ سیاست میں لفظوں کا طوفان بدتمیزی ہے۔ سکولوں ، کالجوں میں لڑکے ، لڑکیاں ایک دوسرے کے نام رکھتے ہیں۔ وہ ناسمجھی کی عمر ہوتی ہے لیکن ہمارے تو بلوغت کے کئی عہد رفتہ دیکھنے والے بھی نام بگاڑ کر تسکین قلب کا جامِ شیریں پیتے ہیں۔ بھٹو بڑے بڑوں کا تمسخر اڑایا کرتے تھے، کسی کو مولانا وہسکی کسی کو آلو خان کہہ کر پکارتے تھے ۔ دور حاضر میں بھی مولانا ڈیزل، شوباز، شیدا ٹلی، صاحبہ، گنجے چور، ڈاکو جیسے الفاظ سلپ آف ٹنگ تو نہیں کہی جا سکتی۔ ایک محترمہ کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ضرورت ہے نیب قانون بدلنے کی طرح ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے سیاسی جماعتیں ایک ہو جائیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مشتاقوں کی قطار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ہونا نصف وزیر اعظم ہونا ہے۔ گورنر سرور کو ن لیگ سے پی ٹی آئی میں آنے کے بعد بھی سکون قلب حاصل نہ ہو سکا۔ قسمت گورنر ہائوس سے نکال کر دوبارہ گورنر ہائوس میں لے آئی۔ شہباز شریف کی چھتری تلے بھی بے اختیار تھے اور اب بھی بے اختیار ہیں۔ اتنا اختیار ضرور رکھتے ہیں کہ ہفتے میں ایک بارعام لوگوں کو اپنے سبزہ زار پر چہل قدمی کی اجازت دے دیں ، ورنہ وہ پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان لفظی گولہ باری جاری ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا یہ اختلاف برائے جمہوریت ہے یا اختلاف برائے اقتدار۔ پنجاب کی سیاست میں سب سے زیادہ سرگرم چودھری برادران ہیں۔ قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخواہ میں ضم تو کر دیا گیا ہے لیکن قبائلی علاقوں میں تبدیلی ابھی ہنوز دلی دور است ہے۔ اگلے تین سالوں میں آئی ایم ایف کو تین ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ وزیر اعظم نے غربت کے خاتمے کیلئے چین سے مدد مانگی ہے۔ ترقی کیلئے پاکستان کو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ مشترکہ خوشحالی کا بہترین ماڈل اور سی پیک نعمت ہے۔ ابھی تک معاشی ترقی کے حوالے سے کوئی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سے پاک ایران تعلقات میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ہے۔ بھارت نے ایران کو پاکستان سے برگشتہ کرنے کی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ گوادر پورٹ کو بے اثر کرنے کیلئے بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے میں شمولیت اختیار کی۔ کلبھوشن اپنی گرفتاری کے وقت چاہ بہار پورٹ سے ہی بلوچستان میں داخل ہوا تھا۔ ایران پاکستان کی تیل، گیس ضروریات پوری کرنے، 10 گنا زیادہ بجلی دینے پر تیار ہے۔ محاصل میں پانچ سو ارب کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عوام کو صداتی اور پارلیمانی نظام سے کوئی مطلب نہیں۔ ملک میں نصف صدارتی نظام تو نافذ ہو چکا ہے۔ پارلیمان ا ور وزراء کی حیثیت کا سب کو علم ہے، بالادست اور زیردست بھی سامنے ہیں۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر سالانہ ٹیکس چھوٹ کی مد 12 لاکھ روپے سے کم کر کے 8 سے9 لاکھ روپے کرنے کی خبر ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقہ ہی ادا کرتاہے۔ ٹیکس چوری کسی سے پوشیدہ نہیں، صنعت کاروں ، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کا کارٹل کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ شکر ہے دوائوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد وفاقی وزارت صحت نیب کے ریڈار پر آ چکی ہے۔ نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر کا خوف کسی مارشل لا سے کم نہیں۔ سرمایہ کار جواب دہی کے خوف سے سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں۔ توانائی کا شعبہ مالی خسارے کا شکار ہے۔ سرکاری اور نجی صارفین پر 8 سو 70 ارب روپے کی بجلی واجبات باقی ہیں۔ بجلی کی 6 تقسیم کار کمپنیوں کے دس لاکھ روپے سے زائد نادہندگان کے نام شائع ہونے جا رہے ہیں۔ لوگ عمران خان کی 23 سالوں کی جدوجہد کا حاصل دیکھنے کے متمنی ہیں۔ مشرف ، زرداری اور نواز شریف سے مختلف حکمرانی سامنے آنی چاہئے تھی۔ کونسا وزیر اور وزیر اعلیٰ ایسا ہے جس کی کارکردگی سے عوام متاثر ہیں۔ حکومت ا ور اپوزیشن کا نیب قانون میں ترمیم پر اتفاق رائے پارلیمان کی مضبوطی کی دلیل ہے! ابھی تک کسی بیرون ملک پاکستانی نے اندرون ملک آ کر کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی۔ آخر سرمایہ کار ہچکچاہٹ کیوں محسوس کر رہے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے بیرون ملک پاکستانیوں سے کم از کم ایک ہزار ڈالر بھجوانے کی اپیل کا کیا نتیجہ نکلا؟ اب تو ڈیم بھی کالا باغ ڈیم کی طرح انار کلی کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں میں پڑا دکھائی دیتا ہے۔ انہی فٹ پاتھوں پر فیلڈ مارشل کی کتاب ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کو کوئی خریدار نہیں ملتا تھا۔ 9 ماہ میں چین کا دوسری بار دورہ کیا۔ 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ابھی دور دور تک کچھ پتہ نہیں۔ پنجاب میں اب تک ترقیاتی بجٹ کا 50 فیصد سے بھی کم استعمال ہوا ہے۔ اورنج لائن بھی سپریم کورٹ کے حکم پر 20 مئی تک چلنا شروع ہو گی۔ زبان پھلسنا بھی عام بات ہو گئی ہے۔ گورنر پنجاب نے بھی کہہ دیا کہ وہ آلو چھولے بیچنے نہیں آئے مطلب یہ تھا کہ وہ امور مملکت اور امور پنجاب میں ڈمی حیثیت کے مالک نہیں۔ خاندان میں باپ کے علاوہ بھی چاچے ، تایوں کا بھی کوئی رول ہوتاہے، اسی طرح عثمان بزدار ہی سب کچھ نہیں۔ چودھری سرور ، چودھری پرویز الٰہی کچھ اختیار نہ بھی رکھیں ناقدین کا کردار ضرور ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت کے پاس قرضوں کے سوا کوئی حل نہیں۔ پٹرول ، گیس ، بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بغیر پیسہ جمع نہیں ہوتا۔ موبائل ٹیکس بھی تجوری بھرنے کیلئے ہے۔ اگلے سال 24 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں ہم بار بار قرضوں کے لیے سوالی بن کر جائینگے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024