اتوار‘ 12 شعبان المعظم‘ 1439 ھ ‘ 29 اپریل 2018ء
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پی ٹی آئی کے مراد سعید کی وزیر مملکت عابد شیر علی سے ہاتھا پائی کی کوشش
بجٹ اجلاس کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقابلہ سماعت خراشی‘ حسن بدزبانی اور دنگا فساد کا ہمیشہ امکان رہتا ہے۔ ہر اجلاس میں واک آ¶ٹ اور بائیکاٹ کی نوبت آتی رہتی ہے مگر بات زیادہ سے زیادہ بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر اچھالنے‘ شیم شیم کے نعروں یا واک آ¶ٹ تک ہی رہتی ہے۔ سینئر پارٹی رہنما دونوں طرف سے پرتشدد کارروائیوں پر روک لگانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جب سے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں انٹری کی ہے۔ ان کی طرف سے بعض نوجوانوں پر روک ٹوک کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ایسے ہی ممبران اسمبلی میں مراد سعید بھی شامل ہیں۔ نوجوان بھی ہیں اور پرجوش بھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوں گے۔ رویہ سے نہیں لگتا۔ اب تبدیلی کے ریلے میں بہتے ہوئے قومی اسمبلی تک بھی آن پہنچے ہیں۔
مگر ابھی تک 5 برس کے باوجود پارلیمانی روایت سیکھ نہیں پائے۔ پہلے بھی وہ ایک سینئر ممبر اسمبلی کے ساتھ مکابازی کا مقابلہ کر چکے ہیں۔ اب پھر گزشتہ روز اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جس طرح وہ شور شرابے کے دوران حکومتی رکن اسمبلی کو مارنے دوڑے وہ نہایت اشتعال انگیز حرکت تھی۔ جس کا پاس بیٹھے پارٹی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ مراد سعید کہتے ہیں عابد شیر علی نے مجھے گالی دی۔ حیرت ہے اس شور شرابا میں انہوں نے گالی سن کیسے لی۔ جب کان پڑی آواز اس مچھلی منڈی میں سنائی نہیں دے رہی تھی۔ پھر آپ جب لڑنے دوڑے تو آپ بھی تو جو کچھ ارشاد فرما رہے تھے وہ گالیاں نہیں تو کیا تھا۔ بات بات پر میری غیرت کو للکارا جیسے جملے کہہ کر آپ خود کو بچانے کی کوشش نہ کریں۔ غیرت سب کی ہوتی ہے۔ یہ صرف کسی ایک قوم یا قبیلے کی میراث نہیں۔ ہر ایک کا خون جوش مارتا ہے۔ مگر سب لڑنے نہیں دوڑتے۔ تعلیم اگر شعور اور تحمل پیدا نہ کرے تو جہالت ہی کہلاتی ہے۔
٭....٭....٭....٭
جو زیادہ چالان کرے گا اسے چھٹی ملے گی۔ وارڈنز کو مراسلہ جاری
برسوں سے ایک شعر زبان زدعام ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ سکول کے بچے بچیوں سے لے کر بڑی عمر کے بابے تک حسب الحال اسے استعمال کرتے ہیں۔ شعر کچھ اس طرح ہے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
سو اب محکمہ ٹریفک پولیس نے بھی تمام وارڈنز کو یہ نادر شاہی حکم جاری کیا ہے کہ آئندہ اس ٹریفک وارڈنز کو چھٹی ملے گی جو زیادہ سے زیادہ چالان کریں گے۔ عام الفاظ میں وارڈنز کو عوام کے قتل عام کا لائسنس جاری کر دیا گیا ہے۔ اب وارڈنز ہوں گے اور چالان بک ہو گی اور ان کے سامنے دبکے سہمے ہوئے عوام جن میں زیادہ تر موٹرسائیکل سوار رکشے والے اور چھوٹی موٹی کھٹارہ گاڑیوں والے ہوں گے۔ بڑی لگژری گاڑیوں کو روکنے کی ہمت بھلا ان وارڈنز میں کہاں۔ اب آئے روز سڑکوں پر لوگ ان وارڈنز اور گاڑی چلانے والوں میں رستم و سہراب والی جنگ دیکھا کریں گے۔ سو اب اس حکم کے بعد عوام مار دھاڑ سے بھرپور پروگرام براہ راست سڑکوں پر دیکھا کریں گے۔ جس میں کسی کی وردی پھٹے گی اور کسی کے کپڑے اور کسی کا سر....
شمالی و جنوبی کوریا کے سربراہوں میں تاریخی ملاقات۔
ایک طویل عرصہ کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا والے پھر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں۔ عالمی سامراج نے سرد جنگ کے دور میں اسے کچھ اس طرح تقسیم کیا کہ کروڑوں کوریائی اپنے ہی گھر کی تقسیم کا شکار ہو کر روس اور امریکی ایجنٹ بن گئے۔ روس بطور سپر طاقت انجام بد سے دوچار ہوا۔ امریکہ اکیلا ہی دنیا فتح کرنے نکلا تو شمالی کوریا نے صدر ٹرمپ کی اس توسیع پسند بمباری والی پالیسی کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔ الٹا امریکہ کو ایسے آنکھیں دکھائیں کہ خود ٹرمپ کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ ٹرمپ صاحب شمالی کوریا کے ایٹمی میزائل پروگراموں پر بڑا گرجے‘ بڑا برسے۔ یورپی اتحادیوں تک کو ساتھ ملانے کی دھمکیاں دے کر سمندری حدود میں بحری بیڑے سے ناکہ بندی تک کا ناٹک رچایا مگر شمالی کوریا والے ذرا بھی نہیں گھبرائے بلکہ انہوں نے پورے شمالی کوریا کے قدم قدم پر ایٹمی میزائلوں کی دیوار کھڑی کر دی کہ دیکھتے ہیں کون بچ نکلتا ہے۔ شکر ہے دنیا کو اب اس ہولناک ایٹمی جنگ کے خوف سے نجات حاصل ہوئی اور شمالی اور جنوبی کوریا کی عقل مند قیادت نے اپنے ملک کو اور دنیا کی بڑی تباہی سے بچا لیا۔ دونوں ممالک کے سربراہ جب گزشتہ روز اپنی اپنی سرحد پر آ کر ایک دوسرے سے مسکراتے ہوئے ملے۔ مسکراہٹیں بکھیرتے نظر آئے‘ روایتی کھانے اور روایتی لباس میں ملبوس فوجی پریڈ میں شریک ہوئے تو دنیا بھر میں یہ احساس بیدار ہوا ہے کہ سنگین سے سنگین مسائل بد سے بدترین حالات میں بھی باہمی مذاکرات سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ کاش یہ بات بھارتی حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آ جائے اور وہ مسئلہ کشمیر حل کر کے پاکستان کے ساتھ دوستی کے نئے سفر کا آغاز کریں۔
٭....٭....٭....٭
متحدہ مجلس عمل 13 مئی کو مینار پاکستان پر جلسہ کرے گی۔
اب تو لگتا ہے مینار پاکستان گراﺅنڈ کی شامت آنے لگی ہے۔ یہ گراﺅنڈ اب گریٹر اقبال پارک کہلاتی ہے۔ جسے نہایت خوبصورتی سے عوام کی تفریح کیلئے بنایا گیا تھا مگر یہ سیاسی جماعتوں کا تختہ مشق بنتی جا رہی ہے۔ نو تعمیر شدہ اس اقبال پارک میں پہلا جلسہ آج تحریک انصاف والے کر رہے ہیں اس کے بعد متحدہ مجلس عمل بھی اعلان کر چکی ہے۔ یہ جلسے ظاہر ہے کافی بڑے ہوں گے۔ یہ لوگ برہنہ پا یا خالی ہاتھ تو نہیں ہوں گے۔ نہ ہی پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے کہ پارک کی گھاس کو کیاریوں کو نقصان نہ پہنچے۔ جلسے میں اکثریت باہر سے آنے والوں کی ہوتی ہے۔ وہ ویسے بھی لاہور کی خوبصورتی پر مر مٹتے ہیں۔ سو یہ حضرات جلسے کے شوق میں لاہور دیکھنے کے جنون میں اس قدر جذباتی ہو جاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے اچھی بھلی سڑک کو کچرے کا ڈھیر بناتے ہیں۔ اس بے چارے گریٹر اقبال پارک کی کیا مجال جو راہ میں مزاحمت کر سکے۔ یہ لاکھوں ہزاروں لوگ جب اپنے جوتوں تلے اس پارک کی گھاس‘ پودوں‘ کیاریوں‘ خوبصورت روشوں اور مصنوعی آرائشی اشیاءکو روندیں گے تو اس کے بعد مینار پاکستان کے ارد گرد کا علاقہ کسی خودکش دھماکے یا میدان جنگ کے بعد والی حالت کا منظر پیش کرے گا۔ ہمارے ہاں یہ روایت بھی نہیں کہ بعد میں پارک کو تباہی و بربادی کا خرچہ اس جماعت یا تنظیم سے وصول کیا جائے جو اس کی ذمہ دار ہے۔ نہ ہی ہمارے سیاسی کارکن اس قدر مہذب ہیں کہ جلسے کے بعد پھیلایا ہوا کچرا بھی خود ہی سمیٹ لیں تاکہ صفائی کی صورتحال بہتر بنائی جا سکے۔ سو اب ہم گریٹر اقبال پارک کی جلسوں کے بعد کی حالت پر پیشگی صرف اظہار افسوس ہی کر سکتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭